کیا آرام طلبی مرد کا حق نہیں؟

1
1605

ظالم مردوں کی کہانیاں مہذب معاشروں میں کب کی دم توڑ چکی ہیں، اب تو خواتین اور مردوں کے برابر حقوق کی جنگ جاری ہے، کبھی مرد اپنا فطری حق سمجھتے ہوئے عورت کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی عورت اپنےہی الگ رنگ سے مرد کو رام کرتی نظر آتی ہے، میرے پچھلے بلاگ http://ramzanrafique.com/social/4282017/کوئی ہے جو مردوں کی سنے پر ہمارے بہت سے فاضل دوستوں نے سوالات کی بوچھاڑ کی ہے۔ ایک دوست نے تو یہاں تک کہنے کی کوشش کی ہے کہ میرے ان خیالات سے مردانہ بالادستی کی بو آتی ہے اور ان خیالات کے پڑھنے سے پہلے تک وہ مجھے ایک معقول آدمی سمجھتے تھے یعنی ان کی مراد ایسی ہے کہ ان کی سوچ سے اختلاف کا مطلب ہی نا معقولیت ہے۔ بہت سے دوستوں نے یہ لکھا کہ اس مضمون سے روایتی مردانہ خو کی بو آتی ہے۔ یعنی انہوں نے ہمارے سبھی دلائل یک جنبش قلم رد کر دئیے کہ یہ ٹھیک نہیں ہیں۔ خیر درست کیا ہے؟ ابھی اس کی وضاحت جاری نہیں ہوئی ۔


خیر جو سوالات کئے گئے ہیں ان کا باری باری جواب دیا جائے تو مناسب ہو گا 


اس مردانہ سوسائٹی میں مردوں کے حقوق کی آواز کیونکر؟ 

جب مرد ہر طرف چھائے ہوئے ہیں، کاروبار سے لیکر سماجی دنیا تک تو مردوں کے حقوق کے آواز اٹھانا کیونکر مناسب ہو سکتا ہے، تو دیکھئے عرض یہ ہے کہ 

زیر بحث مضمون صرف سماجی زندگی کو ہی موضوع بنایا گیا ہے، 

 پیرٹی آرگنائزیشن http://www.parity-uk.org/index.php 

مردوں اور عورتوں کے برابر حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کی طرف سے کی گئی ریسرچ سے کچھ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 

گھریلو تشدد کا شکار ہونے والے ہر پانچ افراد میں سے دو مرد ہیں۔ ہمیشہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بے چاری عورت ہی ہو گی جس نے زخم کھائے ہیں لیکن جو چوٹیں مرد کھاتے ہیں وہ تو کسی کو دکھا بھی نہیں پاتے، اسی رپورٹ کے توسط پتہ چلا ہے کہ بہت سے مرد اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو رپورٹ ہی نہیں کرواتے کیونکہ ان کو لگتا ہے اس سے ان کے مردانہ امیج کو نقصان پہنچتا ہے، یعنی ابھی اکثریت مرد رپورٹ نہیں کرواتے پھر بھی پانچ میں سے دو مرد گھریلو تشدد کا شکار ہیں، 

میں ذاتی طور پر ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جو شادی کے بعد یہاں ڈنمارک میں آئے ہیں، ان کی سسرالی فیملیاں ان کے ساتھ مناسب سلوک روا نہیں رکھتی ، ان کو اپنے پاکستان میں موجود خاندان کی کفالت کرنے سے روکا جاتا ہے، وہ پیسے کہاں کہاں خرچ کرتے ہیں پائی پائی کا حساب لیا جاتا ہے، اس طرح کا نفسیاتی تشدد شاید کسی شمار میں بھی نہ ہو؟



کیا گھر سنبھالنے والی عورت کھانا بھی نہیں بنائے گی؟


برابری کا مطلب برابر کام کرنا بھی ہوتا ہے، اگر مرد اور عورت نے کام تقسیم کر لئے ہیں، مرد کہتا ہے کہ میں کما کر لاوں گا یعنی کفالت کروں گا، اور عورت کہتی ہے کہ میں گھر سنبھالتی ہوں، میں پرورش کروں گی، اگر کمانے والے اپنی ذمہ داری پوری دل جوئی سے نبھا رہا ہے، اس نے آجتک یہ گلہ نہیں کیا کہ کس مشکل سے اس نے روزگار کمایا ہے، اس کے لئے اسے کیا تکالیف اٹھانا پڑی، کس کس کی کڑوی کسیلی باتیں سنیں ہیں اور دوسری طرف وہ گھر جائے اور اسے گھر کا سکون ہی ملے تو اسے تشدد نہیں کہیں گے تو اور کیا؟  جس متعلقہ واقعہ کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ ایک حقیقی واقعہ ہے، فون کسی اور دوست نے نہیں کیا، اسی گھر کے فرد نے اپنے لئے کھانے کا پوچھا ہے ، کیا دو افراد کے لئے بھی کھانا نہیں بنایا گیا؟   اگر نہیں تو کوتاہی کس کی ہے؟ جب ایسی کوتاہیاں معمول کا حصہ بن جائیں تو تشدد کون کر رہا ہے؟


اگر گھر داری بھی گھر والی کی ذمہ داری نہیں تو کس کی ؟

کیا عورتیں خانساماں ہیں؟ یا بچے پیدا کرنے کی مشینں ہیں؟ یا ان کی ذمہ داری مردوں کو خوش کرنا ہے؟کیا یہ سوچ پرانی ہے،

اگر عورت اور مرد برابر ہیں، تو کیا دونوں کی ذمہ داریاں برابر نہیں ہونی چاہیں، کچھ کام ایسے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتے، جیسے مرد بچے پیدا نہیں کر سکتا ، یہ تکریم عورت کے حصے میں ہی آئی ہے، لیکن ایک عورت باہر جا کر کام نہیں کرتی، گھر رہ کر کام نہیں کرتی، لیکن وہ مرد کی برابر ہے، تو کیسے، اس نے ایسا کیا کیا ہے جو اس کو برابر سمجھا جائے، میرے خیال میں تو یہ امتیازی سلوک ہے جس کا مستحق ایک اپاہج شخص تو ہو سکتا ہے ایک صحت مند عورت نہیں، برابری ہم اسی کو کہیں گے جس میں حقوق و فرائض برابر ہیں، اگر کام بانٹے گئے ہیں تو ہر فریق اپنی ذمہ داری بطریق احسن نبھائے۔

کیا آرام طلبی عورتوں کا حق نہیں؟

اس کا جواب یہی ہے کہ کیا آرام طلبی مردوں کا حق نہیں؟ اگر مرد باہر جا کر دھکے کھا رہا ہے، جیسا کہ مذکورہ مضمون میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جن کی بیگمات صرف گھر داری ہی کرتی ہیں، تو کیا یہ برابری ہے آپ تو سارا دن ٹیلی ویژن میں گھسی رہیں، اور شوہر کام کرتا رہے؟

عورتوں کو گھریلو ملازم نہیں سمجھا جانا چاہیے؟

پاکستانی کلچر میں جہاں مرد اور عورت کے درمیان کام کی تقسیم موجود ہے، وہاں اگر ایک عورت گھریلو ملازم ہے وہاں ایک مرد گھر سے باہر ملازم ہے؟ کیا کبھی کسی مرد سے سنا گیا کہ  گھر سے باہر اس کو کیا کیا کام کرنے پڑنے، ایک مرد اس بات میں بھی فخر محسوس کرتا ہے کہ اپنا گردہ بیچ کے بھی اپنے گھر تک فاقہ نہیں پہنچنے دیتا اور وہاں برابری کی دعوے دار گھر کا معمولی کام کرنے پر بھی اپنی توہین محسوس کرے تو اس بیماری کا علاج نا ممکن ہے۔

کیا مرد کا رتبہ ایک درجہ زیادہ ہے؟

کچھ خواتین کو اس بات پر اعتراض ہے کہ مذہبی نقطہ نظر سے مرد کو عورت پر فضیلت کی بات کیوں کی جاتی ہے؟  مذہبی حوالے سے کوئی عالم ہی اس کا جواب دے تو مناسب ہو گا، سماجی حوالے سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی چلتا ہے، وہ عورتیں جو مردوں سے زیادہ کماتی ہیں وہ کب اپنے مرد کو خاطر میں لاتی ہیں اور مرد بھی اپنی معاشی برتری کو فضیلت کی چابی سمجھتا آیا ہے، جہاں عورتیں اور مرد معاشی اعتبار سے برابر ہیں، جیسے ڈنمارک جیسے ملک ان ملکوں میں کون کہتا ہے کہ مرد کا رتبہ ایک درجہ زیادہ ہے؟ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہمارے دیسی کلچر کے حساب سے جہاں جہاں عورتیں مردوں کو بیاہ کر لانے میں کامیاب ہوئی ہیں ایسی خاندانوں کو ایک کیس سڈی کے طور پر پرکھ کر دیکھ لیجئے، رتبہ اسی کا بلند ہے جس نے خرچہ کیا ہے۔

میں اپنے خیالات پھر سے دہراتا ہوں کہ کسی وقت میں عورت مظلوم تھی، وہ وقت جو میں نے نہیں دیکھا، جہاں عورت پرظلم ہوتا ہے وہ جگہیں بھی میں نے نہیں دیکھیں، میں نے جو اردگرد دیکھا وہ تو یہی ہے کہ اب گھر گھر (کوپن ہیگن سے لیکر پاکستان کے شہری علاقوں تک)عورت ہی حکمران و فیصلہ ساز ہے، وہ اتنی گئی گذری نہیں کہ کوئی اس کے حقوق غصب کر سکے، اس کو اپنا آپ منوانا آ گیا ہے، اب تو ایسا وقت ہے جس میں مردوں کو اپنے لئے برابری کا مطالبہ کرنے کی خواہش کرنا ہو گی۔

آج جب مرد و عورت نے مل جل کر کفالت کا بوجھ تقسیم کر لیا ہے تواس بات میں کوئی حرج نہیں کہ مرد بھی پرورش کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا نظر آئے، ہاں اگر عورت باہر بھی کام کرتی ہے اور پھر گھر داری بھی اسی کو کرنا ہے تو اس کیس میں عورتوں کا شکوہ مناسب اور جائز ہے،۔

1 تبصرہ

  1. Dear Rafique
    Now I have carefully read your explanations and response to the critic expressed by various commentators on your first article: Is there anybody who would also listen to men?
    The title of your response is; Do not men have the right to relax?

    With all due respect to your personal observation regarding the relationship between men and women, I simply object to this medieval discourse that you have adopted. Sadly, you have turned one of the most important issue that humanity has faced for millenniums and is still facing, namely the Gender Equality and rights and duties imbalance, into the question of a Pakistani husband’s right to have meals ready when he comes home.
    WOW, what a philosophical approach to life?

    Here is my last comment on your present post because, I can see that you are not willing or able to get to the root of the problem and instead blame others not to understand your thoughts.
    Then, you refer to UK organization Parity to support your insinuation that men are victim of violence. The fact is that this organization promotes and protects the equal rights of men and women to the enjoyment of all civil, political, economic social and cultural rights under the law. So tell me Rafique, in which afore mentioned fields, men are victim and women dominate.

    The problem is that you jump from issue to issue and area to area to make a point and thus show your own confusion and lack of research. The second problem is that you use very bombastic, emotional and flowery URDU language that does not do justice to your own cause. Please state your case clearly and objectively so that it can be discussed in the same manner.
    The third problem is that you claim that your critics have dismissed all your arguments. If it was so, why would people use their precious time to have a discussion with you.
    The fourth problem is that you bring your personal experiences or the examples of your friends where their in laws may have treated them wrongly as proof. We did not discuss such issue but gender equality.
    Then you use sentences like;
    کیا گھر سنبھالنے والی عورت کھانا بھی نہیں بنائے گی؟
    گر گھر داری بھی گھر والی کی ذمہ داری نہیں تو کس کی ؟ ا

    It means that you only look at this issue from a Pakistani perspective while others talk of
    Universal values, change of power structure and reduce if not eradicate the imbalance between women and men that is so obvious.
    Since you talk of Pakistanis, here is something to look at;

    Gender gap index puts Pakistan in second-last place
    MUBARAK ZEB KHAN, OCT 26, 2016

    Pakistan ranked 112th in 2006, the first year of the report. Since then, its position has been deteriorating every year. Pakistan ranked 135th in 2013, 141st in 2014 and 143rd in 2015. https://www.dawn.com/news/1292347
    https://www.dawn.com/news/1142194/gentlemen-its-time-to-close-pakistans-gender-gap

    Kind regards

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.