یہ وہ وقت تھا جب زندگی پر اپنی حکومت تھی، والدین کے پیسوں پر پڑھنے اور زندگی گذارنے کی عیاشی بادشاہت کی طرح ہوتی ہے جس میں کسی اور کی شاہی میں حکم آپ ہی کے چلتے ہیں، ہم جامعہ زرعیہ میں ایم ایس سی ایگری کلچر کے طالب علم تھے اور ہمیں بہاولپور میں کسی آل پاکستان تقریری مقابلہ میں شریک ہونا تھا، میرے رومیٹ عتیق الرحمن للہ اردو کے دبنگ مقرر تھے، اور میں پنجابی ٹاکرے میں کچھ نہ کچھ گذارہ کر لیتا تھا، ہمارے دیگر رومیٹ میں سے عدنان ڈوگر سے ہم نے کہا وہ بھی ہمیں اخلاقی مدد دینے ہمارے ساتھ چلیں تو وہ بھی فورا تیار ہو گئے، چوتھے رومیٹ میاں نجم اپنے گھر میاں چنوں گئے ہوئے تھے ان سے کہا کہ بہاولپور جانے کا پروگرام بنا ہے، پنجابی کی ٹیم مکمل کرنے کے لئے ایک مقرر کی بھی ضرورت ہے ساتھ چلو، وہ بھی فورا تیار ہو گیا، ہم فیصل آباد سے بہاولپور کے لئے روانہ ہوگئے اور نجم نے ہمیں خانیوال پر جائن کر لیا، تقریری مقابلہ ہوا، ہمارے ایگری کلچر یونیورسٹی کی ٹیموں نے سبھی مقابلہ جات میں حصہ لیا، جس میں نعت، شاعری ، اردو، انگلش اور پنجابی تقاریر کے دوست شامل تھے، میری پنجابی میں کوئی پوزیشن نہ آئی ، عتیق للہ نے میدان مار لیا، انگلش میں بھی ہماری یونیورسٹی ہی جیتی اور ٹیم ٹرافی کی بھی ہماری یونیورسٹی حق دار قرار پائی،
ان مقابلہ جات سے فارغ ہو کر فیصل آباد جانے کے لئے ٹرین سٹیشن پر پہنچے تو پتہ چلا کہ سیہون شریف کا عرس زوروں پر ہے اور زائرین کی بڑی تعداد عرس کے لئے جا رہی ہے، زائرین کے لئے سپیشل ٹرینوں کا بندوبست بھی کیا گیا تھا لیکن پھر بھی سب ٹرینوں پر خوب رش تھا، کسی دوست نے کہا چلئے ہم بھی سیہون شریف سے ہو آئیں، اگلے ہی لمحے راستے کا رخ ایک سو اسی کے زوائے پر سندھ کی طرف موڑ دیا گیا، ٹرین میں بمشکل کھڑے ہونے کی جگہ تھی، ہم ایسے رش سے گھبرانے والے کہاں تھے، کچھ ہی وقت میں ہم سب دوست برتھوں پر سوئے لوگوں کے پاوں میں بیٹھنے کی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے، رات گئے ہم سیہون شریف پہنچے تو یہاں دن کا سا سماں تھا، لوگ جوق در جوق دربار کی طرف جا رہے تھے، جگہ جگہ لنگر کا اہتمام کیا جا رہا تھا اور ہم ایسے لوگوں کو لوگ پکڑ پکڑ کر کھانے والے دستر خوانوں پر لے کر جا رہے تھے، ہم نے بھی ایک دو دستر خوانوں سے کھانا چکھا، اور اس کے بعد دربار کی طرف جانے والی دھمال پارٹیوں میں شامل ہو گئے، دھمال پارٹیوں میں اگر آپ نے دھمال نہیں ڈالی تو آپ اس زندگی کے ذائقوں میں سے ایک ذائقے سے محروم ہیں، اب بھی کبھی وقت ملے تو خود کو بھول کر بدن کو گھما کر دیکھئے، زندگی مختلف نظر آئے گی، ہم نے راستے میں جانے والی کئی دھمال پارٹیوں میں سنگت کی کوشش کی لیکن ہماری بے سری دھمال کو گروپ والے برداشت نہ کرتے اور ہاتھ سے پکڑ کر باہر نکال دیتے، لیکن جوانی اور بے فکری کی اس دنیا میں قلندر کے دربار پر جانے راستوں پر ایک دھمال پارٹی سے نکالے جانے کی پرواہ کس کو تھی، ہم ایک ٹولی سے نکل کر دوسری اور تیسری میں چلے جاتے اور بالآخر دربار جا پہنچے۔
رات کے بارہ بجنے والے ہوں یا شاید اس سے بھی زیادہ لیکن لوگوں کا کھڑکی توڑ قسم کا رش تھا، ہم نے بمشکل مزار پر فاتحہ پڑھی، اسی مزار کے احاطے میں زندگی میں پہلی بار میں نے لوگوں کو ماتم کرتے دیکھا، وہ منظر آج بھی میری آنکھوں پر تصویر بناتا ہے، پندرہ بیس جوانوں کی ٹولی کسی فوجی پریڈ کی طرح منظم انداز میں سینہ کوبی کر رہی تھی، پیچھے مرثیے کی بلند آواز اور گمگ کی کیفیت پیدا کرتے سینہ کوبی کرتے ہوئے ہاتھ، میں سارے منظروں کو بھول کر اسے دیکھتا رہا، کچھ دیر بعد ہم نے واپسی کی ٹھانی، اگلہ مرحلہ تھا کہ رات کہاں بسر کی جائے، یہ منصوبہ بنایا گیا کہ واپس چلا جائے اور ہم اسی رات کے اگلے پہر ریلوے اسٹیشن پر چلے آئے، واپسی کی ٹرین چلنے میں کچھ آٹھ دس گھنٹے کا وقفہ تھا، اب اتنا وقت کہاں گذارہ جائے، سوچا گیا کہ پلیٹ فارم پر کچھ کمر سیدھی کر لی جائے، پلیٹ فارم پر کے فرش پر بھی تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، جگہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم پلیٹ فارم کے آخری کونے تک آ گئے، یہاں نسبتا بہت کم لوگ تھے، ہمارے پاس ایک دو گرم چادریں موجود تھیں، انہیں بچھایا گیا، ابھی کمر سیدھی بھی نہ کرنے پائے تھے کہ ہوا کے ایک جھونکے نے ہمیں یہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا، شاید پاس ہی کہیں اوپن ائیر ٹائلٹ بنے ہوئے تھے۔
ریلوے اسٹیشن پر چند بوگیاں کھڑی تھیں، جن میں کچھ بوائے سکاوٹ نظر آ رہے تھے، ذہن لڑایا گیا کہ ان سے مدد مانگی جائے، عتیق للہ صاحب اور میں بھی سکاوٹنگ کا ایڈوانس یونٹ لیڈر کورس کئے ہوئے تھے، اور اس حلقے کے کچھ مقتدر لوگوں سے آشنائی بھی تھی، ان سکاوٹ دوستوں کو اپنی پریشانی بنائی، انہوں نے اپنے سکاوٹ بھائیوں کی مدد کرنے کی جستجو کی تو ایک راستہ نکل ہی آیا، وہ بوگیاں جنہوں نے اگلی صبح واپسی کے راستے پر چلنا تھا وہیں کھڑی تھیں، انہوں نے ریلوے کے کسی عہدیدار کی مدد سے ہمیں ان بوگیوں میں سونے کی اجازت دے دی، اگلی صبح جب آنکھ کھلی تو ٹرین آہستہ آہستہ واپسی کے سفر پر گامزن تھی اور لیکن پریشانی یہ تھی کہ ہمارے کسی کے پاس بھی ٹکٹ نہ تھا، خیر اگلے ریلوے اسٹیشن پر جونہی ٹرین رکی ٹکٹ خرید لئے اور ہم اس یادرگار سفر سے جسمانی طور پر واپس یونیورسٹی چلے آئے۔
لیکن اب بھی کبھی اس سفر کی یاد ہم دوستوں کو بہت سے لمحوں کو مسحور کر دیتی ہے، ابھی چند دن پہلے سہون شریف کے دربار پر حادثے نے تو بہت غم زدہ کردیا ہے، وہ شخص جس نے کبھی سخی شہباز قلندر کے مزار کا سفر نہیں کیا وہ اس منظر کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہاں لوگوں کے کیا رکھا ہے، بیمار شفا ڈھونڈنے جاتے ہیں، غریب اپنے حالات کی بہتری، حاجت مند اپنی تکالیف کا ازالہ، آپ ان مسافروں کی آنکھوں کے خواب پڑھیں تو آپ کے سارے فتوے جھاگ کی مانند بیٹھ جائیں، دنوں کے بھوکے کو مردار کھاتا دیکھ کر کوئی ذی شعور فتوی کہاں دے سکتا، پاکستان میں لوگوں کی تکلیف بھری زندگیوں میں ایک تازہ ہوا کی کھڑکی ہے سخی شہباز قلندر کا دربار، ایک آس کا دیا ہے ، ایک ایسے مریض کی اخری امید جسے ڈاکٹر ناقابل علاج قرار دے دے۔
مذہبی دوست آپ کو بہتر بتا سکتے ہیں کہ ایسے مزار اور ان پر ہونے والے کام کتنے اسلامی ہیں اور کتنے غیر اسلامی میں صرف آپ کو سوچنے کی ایک دعوت دیتا ہوں کہ مجھے یہ بتائیے لوگوں کو زندگی جینے کی امید اگر ملتی ہو تو یہ سفر برا کیا ہے۔ اور حیران ہوں ایسے لوگوں پر جو ایسے پسے ہوئے اور مرے ہوئے لوگوں کو بھی مارنے کے درپے ہیں۔ اگر روشنی پھیلانی ہے تو اپنے عمل سے پھیلائے، غریبوں کی مشکل کشائی کیجئے، ان کی حاجت روائی کیجئے، ان کے مسائل حل کیجئے پھر کوئی کیونکر جائے گا کہیں مرادیں لیکر اگر ساری مرادیں ہی گھر کی دہلیز پر حل ہو جائیں۔