ملالہ کی اصلی ڈائری کونسی ہے؟

3
2957
 ۔۔۔۔۔ایک بات طے ہے کہ کامیابی کے ہزاروں باپ ہوتے ہیں اور ناکامی اکثر لاوارث ہی ہوتی ہے، جو بے نام روز مرتے ہیں ان مقتولین، بے گناہوں کے خون میں جس جس نے ہاتھ رنگے ہیں ان کو کسی نہ کسی جہان میں انصاف کا سامنا ضرور کرنا ہوگا۔۔۔۔اپنی مرضی اور خیالات کے خلاف کسی شخص کو قائل نہ کرنے کی پاداش میں جان سے مار دینا سب سے بڑی کمزوری اور کم ظرفی کی علامت ہے

کسی کے زورِ گفتار سے گھبرا کر بندوق کا سہارا لینا کسی طرح بھی احسن نہیں اور اسی جرم میں خود ہی موت کی سزا سنا دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔۔۔۔۔ملالہ یوسف زئی کیساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
سوشل میڈیا پر آجکل خبروں کا اتنا رش ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ کس دھاگے کو جدا کس سے کریں، وہ جو انگریجی والے کہتے ہیں کہ اگر تم کسی کو قائل نہ کر سکو تو اس کو کنفیوز ضرور کردو۔۔۔۔۔۔ایک طرف تو اکثریت اس واقعہ کی مذمت کر رہی ہے  اور اس بات پر قائل ہے کہ طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔۔تو دوسری طرف تواتر سے ایسے بیان بھی آ رہے  کہ جس کا بین اسطور مطلب کچھ ایسا ہی ہے کہ وہ طالبان کہاں ہیں جن پر ہر واقعہ کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔
خیر اس بات پر میں قائل ہوں کہ اس کی ذمہ داری طالبان قبول کر چکے کیونکہ ایک ای میل کا حوالہ سلیم صافی صاحب، حامد میر صاحب اور انصار عباسی صاحب نے دیا جس میں طالبان نے اپنی منطق سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی منطق میں کوئی جان نہیں
اس کے ساتھ کچھ لوگوں کی طرف سے ملالہ بیبی سے منسوب  ایک بیان کافی لوگوں نے زور و شور سے شیئر کیا ہے
 میں گذشتہ ایک روز سے ملالہ بی بی کے اس  بیان  کوتلاش کررہا  ہوں جس میں  برقع اور داڑھی کے متعلق کچھ عجیب سی

بات کی گئی ہے، عجیب  اس لئے کہ پتھر کے دور میں انسانوں کے پاس چار گرہ سے زیادہ کپڑا دستیاب ہونے کے امکان کچھ روشن نہیں اور فرعون کی عبرت ناک تصویر میں تو ظالم کلین شیو دکھائی دیتا ہے۔  خیر آمدم بر سرِ مطلب  یہ عبارت احوال نامی ایک ویب پر ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے

( مجھے تو برقعہ دیکھ کر ہی پتھر کا زمانہ یا د آتا ہے اور  داڑھی والے دیکھ کر فرعون۔. شام کو امی، میری کزن اور میں برقعہ پہن کر بازار گئے۔ ایک زمانے میں مجھے برقعہ پہننے کا بہت شوق تھا لیکن اب اس سے تنگ آئی ہوئی ہوں کیونکہ مجھ سے اس میں چلا نہیں جاسکتا http://ahwaal.com/index.php?option=com_content&view=article&id=22836%3A2012-10-11-14-19-35&catid=2%3Anational&Itemid=4&lang=ur)

اس بات کو بی بی سی اردو اور انگلش دونوں میں کھوج چکا ہوں لیکن تاحال نہیں ملی۔۔
۔http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2009/01/090109_diary_swatgirl_part1.shtml
۔اس عبارت کا نا ملنا میرے ذہن میں عجیب سوال چھوڑے جاتا ہے۔۔۔۔۔کیا یہ عبارت پہلے تھی جو اب ختم کر دی گئی یا یہ موجود ہی نہی تھی اور فقط زیبِ داستاں کے لئے دوستوں نے گھڑھ لی۔۔۔۔۔۔اگر یہ مرچ مصالحہ کے لئے کہانی میں ڈالی گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کوئی اس بہیمانہ واردات کو اچھی پوشاک پہنانے کے چکر میں ہے اور اگر اس کو بی بی سی نے اس واقعہ کے بعد ختم کیا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ سبھی قسم کے مسلمانوں سے ہمدردی حاصل کرنے کے چکر میں ہے تا کہ لوگوں کو دکھایا جا سکے کہ اس معصوم تحریر کا کوئی کیونکر دشمن ہو سکتا ہے
میرے پاس جو محدود وقت ہے اس میں کسی نتیجے پر پہیچنا نا ممکن ہے اس لئے دوستوں سے التماس ہے کہ کچھ میری ۔معلومات میں اضافہ کریں

3 تبصرے

  1. وہ عبارت یہ ہے
    پیر پانچ جنوری : رنگین کپڑ ے مت پہنو

    میں اسکول روانہ ہونے کیلئے یونیفارم پہن ہی رہی تھی کہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے پرنسپل نے ہمیں یونیفارم پہننے سے منع کردیا تھا اور کہا تھا کہ گھر کے سادہ کپڑوں میں اسکول آیا جائے اور برقعہ پہن کر۔ مجھے تو برقعہ دیکھ کر ہی پتھر کا زمانہ یا د آتا ہے اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون۔. شام کو امی، میری کزن اور میں برقعہ پہن کر بازار گئے۔ ایک زمانے میں مجھے برقعہ پہننے کا بہت شوق تھا لیکن اب اس سے تنگ آئی ہوئی ہوں کیونکہ مجھ سے اس میں چلا نہیں جاسکتا۔سوات میں آجکل ایک بات مشہور ہوگئی ہے کہ ایک دن ایک عورت شٹل کاک برقعہ پہن کر کہیں جا رہی تھی کہ راستے میں گر پڑی۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر جب اسے اٹھانا چاہا تو عورت نے منع کرتے ہوئے کہا ’رہنے دو بھائی مت اٹھاؤ تاکہ مولانا فضل اللہ کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے‘۔ہم جب مارکیٹ میں اس دکان میں داخل ہوئے جس سے ہم اکثر شاپنگ کرتے ہیں تو دکاندار نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں تو ڈر گیا کہ کہیں تم لوگ خود کش حملہ تو کرنے نہیں آئے ہو۔وہ ایسا اس لیے کہہ رہے تھے کہ اس پہلے ایک آدھ واقعہ ایسا ہوا بھی ہے کہ خود کش حملہ آور نے برقعہ پہن کر حملہ کیا ہے۔میں نے اپنا پسندیدہ گلابی رنگ کا لباس پہننے کے لئے نکالا۔ دیگر لڑکیاں بھی رنگ برنگے لباس پہن کر آتی تھی اور اسکول گھر کے ماحول جیسا لگتا تھا۔اسکول میں میری ایک سہیلی نے پاس آکر کہا کہ برائے خدا ایمانداری سے بتاو کہ کیا طالبان ہمارے اسکول پر حملہ کرنے جارہے ہیں۔صبح کی اسمبلی میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ رنگین لباس پہن کر اسکول نہ آئیں کیونکہ طالبان اس پر اعتراض کرسکتے ہیں۔میں اسکول سے واپس آگئی اور شام کو ٹی وی پر دیکھا تو خبر آرہی تھی کہ پندرہ دن کے بعد شکر درہ سے کرفیو اٹھالیا گیا ہے ۔ یہ خبر سن کر مجھے خوشی ہوئی کیونکہ ہماری انگریزی کی استانی وہاں رہتی تھی جو کرفیو کی وجہ سے نہیں آسکتی تھیں۔ امید ہے کہ اب وہ بھی اسکول آنے لگیں گی۔

Leave a Reply to Usman Ghazi جواب ختم کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.