ابھی ایک میگزین میں پڑھ رہا تھا کہ ویٹنری اسسٹنٹ نے اپنے آفیسر کو اس لئے قتل کر ڈالا کہ اس نے اس کے خلاف کچھ رپورٹ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ماتحت کا تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ یہ خبر ایک عام سے اخبار کی خبر ہے مین سٹریم میڈیا میں اس کو اتنی کوریج نہیں ملی کہ لوگ اس مظلوم کی حمایت کے لئے اکٹھے ہوتے۔ مقتول کی عمر تصویر دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے ابھی اسے نئ نئی نوکری میں ملک کو سنوارنے اور پرانے نظام کو تبدیل کر دینے کی خواہشیں بدرجہ اتم موجود ہوں گی، اور وہ ابھی نمک کی کان میں نمک نہیں ہوا ہو گا۔
کسی کو معمولی رنجش پر پھڑکا دینا لوگوں کے لئے ایک معمولی کام ہے، پچھلے دنوں اخبار کے ایک تراشے پر لکھا ہوا تھا کہ مشہور شاعر محسن نقوی کے قاتل نے انکشاف کیا تھا اس نے یہ کام فقط تین ہزار روپے کے عوض کیا تھا۔ شاید پندرہ بیس سال پہلے کے تین ہزار آج کے پچاس ہزار کے برابر ہوں، لیکن اپنے انتقام کی آگ میں اس قدر اندھا ہو جانا اور اخلاقیات، اور انسانیت کو بالائے طاق رکھ دینا ہمارے دیسی معاشرے کا وطیرہ ہے۔
لیکن ایسے ظالم معاشرے کو کون سمجھائے، ہاں مذہب سے لگاو میں وہ طاقت ہے کہ جو انسان کو سمجھاتی ہے کہ بہترین وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ ہیں، ہاں تعلیم میں وہ طاقت ہے جو انسان کو یہ شعور بخشے کہ اس کے انتقام کی حد کہاں تک ہے۔ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنے مخالفین کے لئے خود ہی سزا تجویز کرتے پھریں۔
لیکن کیا ہمارے ہاں مذہب ناکام ہو گیا ہے یا تعلیم بے سود ہو چکی کہ ہم زمانہ جاہلیت کے انتقام کی کہانیاں دہرانے لگے ہیں، جس میں اپنے دشمن کا کلیجہ چبائے بغیر سکون نہیں ملتا۔ خدا تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اور ہمیں یہ شعور دے کہ معاف کردینے والا ہی افضل ہے۔