ایک بات جو بھکاریوں کے مزاج میں بہت تبدیل ہوئی ہے وہ یہ کہ اب وہ صدا پر اکتفا نہیں کرتے۔۔۔ڈور بیل زور زور سے بجانا۔۔۔۔درازہ بے ہنگم انداز میں کھٹکھٹانا تا کہ گھر والے فوری رسپونس دیں یا یہ اگنور ہی نہ کر سکیں کہ دروازے پر کوئی آیا ہے۔۔۔۔ضد، ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کہ اگر آپ معذرت کر بھی لیں تب بھی۔۔۔۔اور اگر کچھ دے دیں تو اس سے زیادہ کے لئے سیل کال۔۔۔۔۔۔۔۔اور تو اور آجکل کئی فقیر نہ دینے والوں کو بد دعا کا تڑکا لگانے سے بھی نہیں کتراتے۔۔۔۔۔مشکلات میں گھری مایوس قوم اور کہیں قابو آئے نہ آئے بد دعا کرنے والے فقیر کے بعد آنے والے فقیر کو ضرور نوازتی ہے کیونکہ ماحول گرم کرنے والا یہ فقیر فورا اپنے ساتھی کو خبردار کرتا ہے کہ بھائی لوہا گرم کر آیا ہوں۔۔۔۔خدا بھلا کرے محسن نقوی جنہوں نے آجکل کے بھکاریوں کی ساری سائینس اس ایک شعر میں رکھ چھوڑی ہے۔۔۔۔۔کہ
وہ دعا بھی زرِ تاثیر سے خالی دے گا
اور کیا تجھ کو تیرے در کا سوالی دے گا