ڈینش تاریخ حصہ اول

0
4072

پیش لفظ۔

محترم قارئین، ڈینشن شہریت کا امتحان دینے والی کتاب کا اپنے لفظوں میں خلاصہ کرنے کی کوشش کی ہے، یہ ابتدائی شکل ہے، جس میں بہتری کی ضرورت ہے،  اس کو ایک امدادی مواد سے زیادہ اہمیت مت دیجئے، اور اصل کتاب کو ہی پڑھئیے، لیکن ہو سکتا ہے آپ کو اس سے کچھ مدد ملے۔

 

تعارف

ڈینش معاشرے کی بنیاد ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے، ڈینش معاشرے کو سمجھنے کے لئے اس کی تاریخ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ آج یہ ویلفئیر سوسائٹی، اس کا سیاسی نظام، کلچر اور روزمرہ دکھائی دیتا ہے، اس کے پیچھے ایک لمبی تاریخ ہے۔

جغرافیائی طور پر ڈنمارک بالٹک سمندر کا دروازہ ہے، بہت سی یورپی طاقتیں جس تک رسائی چاہتی تھیں، اس لئے انہوں نے ڈنمارک کو کمزور کرنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن ڈنمارک جو کبھی مختلف النسل لوگوں کا گھر تھا رفتہ رفتہ ایک ہی قوم کا گھر بنتا چلا گیا۔

ڈنمارک کی تاریخ بہت طویل ہے، اس میں مختلف طرز کے طرز حکمرانی رائج رہے جن میں سے بادشاہی  ایک کلیدی طرز حکومت رہا۔ موجودہ طرز حکومت کو محدود نظام شاہی کہا جا سکتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ پالیسی بنانے پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس سولہ سو ساٹھ میں منتخب بادشاہی ، وراثتی بادشاہی میں تبدیل ہو گئی جس میں بادشاہ ہی ہر قسم کا فیصلہ ساز تھا۔ یہ مطلق العنان بادشاہی نظام اٹھارہ سو انچاس میں ڈنمارک کے پہلے جمہوری نظام کے ذریعے بدل دیا گیا۔ بظاہر آج بھی ملکہ یا بادشاہ ڈنمارک کے سربراہ ہیں، لیکن منتخب سیاستدان اصل میں پالیسی فیصلے کرتے ہیں۔

باب 2

ڈنمارک ایک سلطنت بنا ۔ وائکنگ کا زمانہ ۔

(750-1035)

وائکنگ کے زمانے میں ڈنمارک ایک بادشاہ کے سائے میں اکٹھا ہوا، اسی زمانے طاقت کا مرکز ایک جگہ قائم ہونے لگا اور ڈینش کرسچن چرچ کی بنیاد رکھی گئ۔

ڈینش سلطنت کا بننا

وائکنگز کو بہت جنگجو سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں  اکثریت ڈینش جنگجو نہ تھے، ان میں بہت سے کسان تھے، جو کھیتی باڑی کرتے، مویشی پالتے اور پرامن لوگ تھے۔

سماج معاشی اور سیاسی طور پر آگاہ ہوا ، وائکنگ بادشاہ نے بہت سارے علاقے پر تسلط کر لیا، سن سات سو کے قریب پہلے مشہور بادشاہ انگاٹور کا یہ علاقہ بعد میں ڈنمارک بنا۔ اور سن نو کے قریب ڈنمارک کی اس پرانی ترین بادشاہت کی بنیاد پڑنے لگی۔

لفظ ڈنمارک نوی صدی کے آخر سے جانا جاتا ہے، ڈین کا لفظ ڈینا سے آیا جس سے مراد ایسے لوگ جو ڈینش علاقوں میں رہتے ہیں، اور مارک کا مطلب سرحد، یا ڈینشوں کی سرحد۔ یہ سرحد غالبا شمالی جرمنی میں رہنے والے سیکسون کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پہلی بار لفظ ڈنمارک کا استعمال سن نو سو پچپن میں گول پتھر پر پایا گیا۔ یہ پتھر جٹ لینڈ کے قصبے جیلنگ میں ملا، اور یہ عبارت وائکنگ کی زبان میں لکھی گئی ہے، اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس کو کنگ گورما اولڈ نے لکھوایا تھا،

دس سال بعد گورما کے بیٹے ہیرالڈ بلوٹوتھ نے ایک پتھر سن نوسو پنسٹھ میں جیلنگ شہر میں لگوایا جس پر یہ بھی لکھا تھا کہ کنگ ہیرالڈ نے ڈنمارک اور ناروے کو فتح کیا ڈینشوں کو عیسائی بنایا، اس لئے جیلنگ میں پرے ہوئے اس پتھر کو ڈنمارک میں عیسائیت کا برتھ سرٹیفیکیٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔

سلطنت کی حفاظت کے لئے ہیرالڈ بلوٹوتھ نے سن نو سو اسی میں کئی حفاظتی حصار بھی بنوائے، شی لینڈ کے ایک شہر سلےلزے کے ایک  حصاری قلعہ کے نام پر ان حفاظتی حصاروں کو ٹریلبورگ کا نام دیا گیا۔  اسی طرز کے حصار یو لینڈ، فوئن، اور سکوئن اور جنوبی سویڈن کے شہروں کے پاس بھی بنائے گئے۔

یہ مضبوط حصار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ڈنمارک اب ایک مرکزی سلطنت کے نیچے آ چکا ہے۔

وائی کنگ کا دنیا سے رابطہ

وائیکنگ دور میں ڈینش باہر سے دنیا سے بہت جڑے ہوئے تھے، وائکنگ جہازوں نے لمبا سفر آسان کردیا تھا، یہ وائکنگ جہاز پرانے جہازوں کی نسبت زیادہ بہتر تھے اس لئے چاہے جنگی مہمات ہوں یا تجارت یہ لوگ بہت دور تک گئے۔

وائیکنگ دیگر یورپ کے ساتھ تجارت کرتے، ان کے روس اور عرب تاجروں کے ساتھ بھی روابط تھے، سن آٹھ سو میں انہوں نے انگلینڈ اور فرانس پر بھی چڑھائی کی، اور موجودہ استنبول تک جا پہنچے۔  ان مہمات میں انہوں نے گاوں، اور  قبیلوں پر حملے کئے اور مقامی لوگوں سے ٹیکس وصول کیا۔

کچھ وائیکنگ ان علاقوں میں بھی جا بسے جسے انہوں نے فتح کیا ، جیسے نارمنڈی فرانس، وائکنگ کی فتوحات اپنے عروج پر پہنچ گئیں جب انہوں نے دسویں صدی میں انگلینڈ کے ایک حصے کو فتح کیا،

عظیم بادشاہ کنڈ نے سن دس سو سولہ سے  انگلینڈ، ڈنمارک اور دس سال بعد ناروے پر بھی اپنی حکومت قایم کر لی۔ اس مقام پر وائیکنگ کی حکومت اپنے زیادہ سے زیادہ کے مقام تک تھی جو کچھ ہی عرصے بعد کم ہونے لگی۔

بادشاہت اور چرچ

قرون وسطی ۔1035-1520

قرون وسطی میں بادشاہ ، کلیسا اور اشرافیہ اقتدار کی خاطر ایک دوسرے سے الجھتے رہتے تھے۔ بادشاہت اور چرچ کا بہت قریب کا تعلق ہے، اس زمانے کے اہم واقعات میں جسک لا، مزارعین کا اکٹھ ہے۔

طاقت کی کشمکش اور کالمار یونین

دس سو پنتیس میں بڑے بادشاہ کنڈ کی وفات کے بعد ایک غیر متوازن دور حکومت گذرا، جس میں بہت سے ڈینش بادشاہ قتل کر دئیے گئے۔ مثال کے طور پر کنڈ دی ہیلیگ  (1080-1086)کو اوڈنسے کے ایک چرچ میں قتل کردیا گیا تھا۔

روپے پیسے والے لوگ بہت بااثر تھے، اور بادشاہ کی طرف لازمی فوجی سروس کے اصولوں کے سے ناخوش تھے، ان بغاوتوں اور قتلوں سے یہ بات واضح تھی کہ بادشاہ صرف اسی صورت میں حکومت کر سکتا ہے جب ان بڑے لوگوں سے معاہدات بنائے رکھے۔ یہ معاہدے اصل میں اشرافیہ اور بادشاہ کے درمیان طاقت کی تقسیم  کے معاہدے بن گئے، اسطرز کا آخری معاہدہ فریڈرک 3 نے 1648، میں دستخط کیا۔ جو کہ 1660 میں وراثتی بادشاہت کے آنے کے ساتھ منسوخ ہوا۔

قرون وسطی کے بادشاہوں کو چرچ اور اشرافیہ دونوں کو ساتھ رکھنا ہوتا تھا، عیسائیت کے آنے کے چند سو سالوں بعد چرچ نے بہت طاقت حاصل کر لی تھی۔  کتھولک چرچ ایک بین الاقوامی تنظیم تھاجس کا یورپ پر بھی گہرا اثر تھا، اور اس نے ڈنمارک کے بڑے حصے پر اپنا اثر چھوڑا۔ اس زمانے کے بادشاہوں کے لئے یہ ضرروی تھا کہ چرچ ان کی پشت پر ہو، بادشاہت اور چرچ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتی تھی، جیسے کہ بشپ ابسلون جو 1158 میں بشپ بنا ایک بھرپور سیاسی شخصیت تھا۔

سن 1100 سے لیکر 1200 تک بادشاہت نے طاقت حاصل کی، اس عرصہ میں والدیمیر نے حکومت کی، والدیمیر اور اس کے بیٹے 1157 سے لیکر 1182 تک حکمران رہے، ان کی طاقت کا اندازہ جسک لا سے بھی کیا جا سکتا ہے، جس میں قانون ساز بادشاہ ہے۔  اس قانون کی قرون وسطی کی سب سے بڑی تبدیلی کہا جا سکتا ہے۔

اس سے پہلے جرم کا بدلہ خود ہی لیا جاتا تھا، جسک لا نے اس طرز کی خون ریزی کو اکھاڑ پھینکا، اس کی وجہ سے بہت سے قانون جو تحریری نہ تھے ختم ہو گئے،

یہ فقرہ کہ قانون سے ہی ملک بنتے ہیں، جسک لا کے تعارف سے لیا گیا ہے۔ پہلے پہل یہ قانون یولینڈ میں نافذ کیا گیا، بعد میں یولینڈ کے قانون کا کچھ حصہ1863 میں ڈینش قانون میں لکھا گیا، جو بعد میں پورے ملک کا قانون بنا۔

سن تیرہ سو والی صدی 1300کے پہلے چوتھائی حصے میں ملک انتشار اور سول وار کا شکار تھا، بادشاہ والدیمیر اٹرڈے، جس کا عرصہ حکومت 1340 سے 1375 تک ہے، ڈینش سلطنت کی طاقت کو اکٹھا کرنے میں کامیاب رہا۔، جب وہ مرا ،اس کی سلطنت صوبے سکین، ہالینڈ، اور بیلنکی تک پھیلی ہوئی تھی جو اب سویڈن کا حصہ ہے۔

والدیمیر اٹرڈے کے دور حکومت میں طاعون کی وبا پھیل گئی، جس نے 1365 میں ڈنمارک اور باقی یورپ کو متاثر کیا، اور ایک تہائی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس سانحے کی وجہ سے بھی بادشاہ کو طاقت ملی، اس نے ان لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا جو مر چکے تھے۔

جب بادشاہ والدیمیر مرا تو اس کی کوئی نر اولاد نہ تھی، اشرافیہ نے اس کی بیٹی مارگریٹ کے پانچ سالہ بیٹے اولف کو بادشاہ بنا دیا۔ اصل میں مارگریٹ کی حکومت چلا رہی تھی اور1387میں اولف کی وفات تک چلاتی رہی

مارگریٹ 1، 1397 میں ناروے کی ریجنٹ بننے میں کامیاب رہی، اس نے سویڈن، ناروے، اور ڈنمارک کو ایک یونین بنا دیا جس کا نام کارلمار یونین تھا، کیونکہ اس کا معاہدہ سویڈن کے شہر کارلمار میں لکھا گیا تھا۔ یہ یونین تین سلطنتوں کی مارگریٹ 1 کے تحت ایک ایسوسی ایشن تھی، جب مارگریٹ کا 1412 میں انتقال ہو گیا، تو اس کی بہن کا پوتا ایرک آف پومیرانیا 1412- 1439، یونین کا بادشاہ بنا۔  کارلمار یونین 1523 میں سویڈن کے اس سے نکل جانے سے ختم ہو گئی اور ناروے 1814 تک اس یونین کا حصہ رہا۔

معاشرتی طبقاتی نظام

قرون وسطی میں ڈنیش معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ یہ دوسرے یورپی معاشروں کی طرح پھلا پھولا، جن کو طبقاتی نظام کہا جا سکتا ہے۔ اس نظام میں چار طبقات تھے، جن کو معاشرے میں حقوق و فرائض کے حساب سے چار گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اہل کلیسا۔ بشپ یا دیگر چرچ کے لوگ

روسا۔ جن لوگوں کو بڑا سمجھا جاتا تھا

رعایا۔ ایسے لوگ جو شہروں میں بستے تھے

مزارع۔

ان چار طبقات میں سے اہل کلیسا اور وڈیرے بادشاہ کی طاقت کے لئے بہت اہم تھے۔ یہ وڈیرے ٹیکس دینے سے بھی آزاد تھے۔ یہ صرف جنگ کے وقت میں بادشاہ کو فوجی امداد دینے کے پابند تھے۔ ان بڑے لوگوں نے بادشاہ کی طاقت کے اوپر بھی اپنا اثر حاصل کیا ہوا تھا۔  سن 1300 کے بعد سے بادشاہ ان وڈیروں کا خود سے انتخاب کرتا  جو ریاست کے با اثر ترین افراد ہوتے ، لیکن پھر انہی لوگوں کی جماعت بادشاہ کا انتخاب کرتی۔ ڈنمارک 1660 تک ایک منتخب بادشاہت والا خطہ تھا جہاں بادشاہت وراثت میں منتقل نہ ہوتی تھی۔

سن 1400 کے دوسرے چوتھائی میں ڈنمارک میں طبقات کی پہلی میٹنگ ہوئی۔ یہاں پر انہوں نے اس بات پر ڈسکشن کی کہ ملک کے لئے سب سے اہم کیا ہے۔ اس وقت تک زیادہ ڈینش مزارع آزاد نہ تھے، وہ کسی جاگیردار کے پاس پابند ہوتے تھے، اس کا مطلب ہے کہ وہ صرف زمین اور کھیت استعمال کرسکتے تھےلیکن وہ اپنی مرضی سے زمین اور کھیت تبدیل نہ کر سکتے تھے، اگرچہ مزارع آبادی کا 80 فیصد تھے لیکن ان کا کوئی سیاسی اثر رسوخ نہ تھا، ایسی طبقاتی میٹنگ کا سلسلہ سن 1660 تک جاری رہا۔

قرون وسطی کے دوران ڈنمارک آہستہ آہستہ ایک سلطنت بنتا چلا گیا، اسی دوران یہ طبقاتی معاشرہ بھی اپنی جڑیں بناتا گیا، جس سے سیاسی توازن پیدا ہوا، لیکن اس توازن کو سن 1500 کے قریب آنے والی اصلاح چرچ، اور نشاط ثانیہ کی لہروں کا سامنا تھا۔

ڈنمارک کا پروٹیسٹنٹ بننا، ریفارمیشن 1520 سے لیکر 1536 تک

سن 1536 کی ریفارمیشن کے ذریعے ڈنمارک پروٹیسٹنزم سے آشنا ہوا، اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ بادشاہ کی طاقت میں بہت اضافہ ہوا، چرچ سٹیٹ کی ملکیت بنا، جس کو پوپ کی بجائے بادشاہ چلاتا، وہی اس کی زمینوں کی نگہبانی کرتا اور چرچ کے آفیشل تعنیات کرتا۔

ریفارمیشن اور سول وار

قرون وسطی میں ڈینش چرچ کتھولک چرچ کا حصہ تھا، اور براہ راست پاپائے روم کے زیر سایا تھا، چرچ ایک طاقتور اور امیر ادارہ تھا۔ لیکن سن 1500 کے قریب اس کی طاقت کو بہت سے ریفارمز کا سامنا تھا، ان میں سے ایک جرمن مونک مارٹن لوتھر کی کی روایتی چرچ سے بغاوت تھی۔ اس نے کہا آپ سالویشن صرف اپنے عقیدے سے حاصل کر سکتے ہیں نا کہ چرچ کو روپے دینے سے، جرمنی اور ڈنمارک میں میں مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں میں اس طر ز کی بحث کا آغاز ہوا، جو کہ جلد ہی مضبوط کیتھولک چرچ کے خلاف ایک محاذ بن گیا، بادشاہ بھی اس ریفارمیشن کا حامی تھا، کیونکہ اس طرح پر وہ چرچ پر طاقت حاصل کر سکتا تھا اور اس کی زمین پر قبضہ کر سکتا تھا، بادشاہ کرسچن 2، جو کہ 1513 سے 1523

تک حکمران رہا، مارٹن لوتھر  1483 سے 1546 تک کی تعلیمات میں دل چسیپی لیتا تھا لیکن کبھی بھی پروٹسٹنٹ نہ بنا۔

کرسچن 2 بعد میں ڈنمارک اور سویڈن میں بہت غیر مقبول ہو گیا، ڈنمارک میں اشرافیہ اس کے خلاف ہو گئی کیونکہ ان کے خیال میں اس نے مڈل کلاس کو ان کے اخراجات پر سپورٹ کیا۔ سویڈن میں اس سے نفرت جاگی کیونکہ اس نے 1520 میں سبھی وڈیروں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، اس کے اس عمل کو سٹاک ہوم بلڈ باتھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سویڈن 1523 میں کالمار یونین سے نکل گیا، اور اسی سال اشرافیہ نے اس کو بادشاہ ماننے سے انکار کردیا، اور وہ ڈنمارک سے بھاگ نکلا اور یوں وہ یونین کا آخری بادشاہ تھا۔

کرسچن 2 کا انکل فریڈرک 1 ، 1523 سے لیکر 1533 تک ڈنمارک کا نیا بادشاہ بنا، وہ پروٹسٹزم کو پسند کرتا تھا، فریڈرک1، 1533 میں وفات پاگیا، اس کے ایک سال بعد کتھولک چرچ اور پروٹیسٹزم کے ماننے والوں میں جنگ چھڑ گئی،  سن 1534 کے اس جھگڑے میں، فریڈرک 1 کے بیٹے، ڈیوک کرسچن، نے کرسچن 3 کے نام کے ساتھ جس کی حکومت 1534 سے لیکر 1559 تک رہی، پروٹسٹنز کی طرف سے اس سول خانہ جنگی کو فتح کر لیا۔

اسی سال ریفارمیشن عملی طور پر وقوع پذیر ہو گئی، ڈنمارک ایک پروٹسٹنٹ ملک بن گیا، بادشاہ نے کیتھولک بشپ کو ہٹا دیا، ڈینش چرچ اب شاہی چرچ تھا، جہاں پوپ کی بجائے بادشاہ کا حکم چلتا تھا۔ اس ریفارمیشن سے چرچ کی سیاسی قوت بہت کم ہو گئی۔ بادشاہ نے چرچ اور اس کی زمینوں پر قبضہ کر لیا جو کہ ملک کی کل کاشتہ زمینوں کا ایک تہائی تھیں۔

اس نے مونیسٹریز بنائیں، اب ریاست کی ذمہ داری تھی کہ بیماروں اور غریبوں کو دیکھ بھال کریں۔ یہاں پر ایسا کرنے کے لئے منک اور ننز تھیں۔  ریفارمیشن کا مطلب یہ بھی تھا کہ صرف بادشاہ ہی چرچ کے آفیشل مقرر کر سکتا ہے، اس طرح چرچ  ڈنیش سلطنت کے اندر و باہر بادشاہی کو مزید مضبوط کرتا تھا۔

ریفارمیشن ایک اہم موڑ اختیار کرتی چلی گئی کیونکہ اس نے چرچ اور بادشاہت کو اکٹھا کردیا، یہ ایک طاقتور بادشاہی کا آغاز تھا جو 1661 میں مطلق العنان بادشاہی  پر منتج ہوا۔

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.