کیا وہ سردیوں کی دھوپ تھی؟ کہاں کی سردی؟

0
31839

وہ گرمیوں کی چھاوں تھی

وہ سردیوں کی دھوپ تھی

احمد فراز کی ایک نظم کے یہ مصرعے کسی سانولی سلونی حسینہ کی یاد میں ہیں، جن کی یاد انہیں ہر دم نہیں کبھی کبھار آیا کرتی تھی ، ہماری دیسی شاعری میں سردیوں کی دھوپ اپنے اندر ایسی گرمی رکھتی ہے کہ آدمی کو موسم سرما بھی لطف آنے لگتا ہے۔۔۔۔لیکن ہمارے ہاں آجکل سکینڈے نیویا میں جیس سردی پڑ رہی ہے وہ دیکھنے میں بہت پرلطف دکھائی دیتی ہے، کھڑکی سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ کیا مزیدار دھوپ نکلی ہوئی ہے، لیکن باہر دھوپ میں نکلو تو عملی طور پر قلفی جم جائے، کل شام باہر نکلا تو مائنس چھ تک درجہ حرارت تھا، لیکن دھوپ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ باہر نکلوں تو جسم کو دیسی سردیوں کی دھوپ کا سا مزہ آئے گا۔

کچھ دن پہلے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ ہمارے ادب میں دوزخ کا تصور ایک ایسی جگہ کا جو بہت گرم ہے، جو آگ سے بھری ہوئی ہے جبکہ یورپ کے ادب میں دوزخ کا تصور ایک ایسی جگہ کا بھی ہے جو بہت زیادہ سرد ہے۔ اس لئے جب سردیوں کی دھوپ کا تذکرہ ہو تو پوچھنا بنتا ہے کہ بھائی کہاں کی سردی؟ کس ملک کی سردی کی دھوپ۔۔۔۔۔یا ہو سکتا ہے احمد فراز بھائی نے طنز ہی کیا ہو؟

کل شام کی سردی سے دو تصاویر آپ کے لئے

 

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.