
یہ ایک خبر نہیں ایک ذہنی بیماری کی غمازی ہے۔۔۔اور وہ یہ کہ۔۔۔۔۔ وہ کون ہے جو بادشاہ وقت کے نمک حلال سے سوال کرنے کی ہمت کرے، یہ وہی سوچ ہے جو چوراہے پر پولیس کے ناکے پر چودہری کے بیٹے کو پولیس سے بدتمیزی پر اکھساتی ہے۔۔۔۔اوے تم کون ہوتے ہو تلاشی لینے والے، یا میری گاڑی روکنے والے۔۔۔تمہیں پتہ نہیں کہ تم نے کس کو روکا ہے، تمہیں پتہ نہیں کہ میرا باپ کون ہے۔۔۔۔۔میں نے خود پولیس کے ناکے پر بڑی گاڑی میں بیٹھے رئیس زادوں کے منہ سے پولیس کے لئے ننگی گالیاں سنی ہیں۔۔۔اور کچھ تو رکنے کی بجائے ایسے غلیظ اشارے بھی کرتے ہیں۔۔۔کہ ان شودروں کی کیا مجال کہ برہمنوں کو پوچھ ہی
سکیں۔۔۔
االیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے تھا کہ مناسب عبارت کے لئے محترم عطاالحق قاسمی صاحب سے رابطہ کرتے اور کوئی مناسب تحریر جو شاہوں کہ یا شاہ کے مصاحبوں کے شایاں ہوتی تحریر کرواتے۔۔۔۔۔
یہ لوگ کیسے اس قوم کو قانون کی پابندی کا درس دے سکتے ہیں، جو احتساب کرنے والے سے حفظ مراتب کی مراعات طلب کررہے ہیں۔۔۔اس بات کو دہرانے کی ضرورت کیا تھی۔۔اگر آپ کے پاس ڈگری ہے تو بھیج دیجئے۔۔۔۔اس پر اتنا اکڑنے کی ضرورت کیا ہے۔۔۔۔لیکن ہو سکتا ہے ۔۔۔چودہری نثار کو ابھی ایسی عبارات پڑھنے کی عادت نہ پڑی ہو۔۔۔اردگرد کے درباری کانوں کو ایسا لطیف بنا چکے ہوں گے کہ اب ایسی عام سے بات بھی انہیں تحقیر محسوس ہوئی کہ آپ مقررہ وقت پر ڈگری جمع کروادیں وگرنہ ان کو نااہل قرار دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔
ویسے آپ کے خیال میں الیکشن کمیشن کو کیا عبارت لکھنی چاہیے تھی کہ چودہری صاحب کی طبع نازک پہ سنگ گراں نہ گذرتی؟؟؟؟؟؟؟؟