کچھ عرصے چند امیر مسلمان ملکوں کی بیوائییں بھی مجھ کچھ خطوط یعنی ای میلز بھجتی رہتی ہیں۔ جن کا واحد مقصد مجھے اپنے اربوں روپے کا کروبار میں شریک کرنا ہوتا ہے۔ میں خدا تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ میری نیک نامی کے چرچے بین الاقوامی سطح پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اب بھلا کوئی ایسے ہی تو نہیں سمندر پار، صحرا پار ۔۔۔۔بس کہیں سوشل میڈیا پر ای میل دیکھ کر آنکھیں بند کرکے یقین کر بیٹھتا کہ یہی وہ شخص ہے جس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ میں ایس ای میلز دوستوں کو دکھاتا ہوں تو حاسد دوست ان کو انٹرنیٹ کا جھوٹ اور سپیم قرار دیتے ہیں۔ ۔۔لیکن میرا ایمان ہے کہ بیواوں اور یتیموں کے مال پر نظر رکھنا انتہائی غیر مناسب ہے اور ویسے بھی پہلے ہی اتنی زیادہ مصروفیات ہیں کہاں ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو پاوں گا ۔۔۔اس لئے سب سے معذرت کر لیتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دنیا کے چند بڑے بنکرز کو جن میں زیادہ تر افریقی ہیں ۔۔۔۔کیسے میری مخفی صلاحیتوں کا پتہ چل جاتا ہے اور وہ مجھ سے التماس کرتے ہیں کہ میں کسی راہبر کی طرح ان کے کاروبار کو سنبھالوں اور ان کی ڈوبتی ہوئی ناو کو بچا لوں۔۔۔۔۔۔۔اس نوعیت کی درجنوں ای میلز آئے روز میرے میل باکس کو بھرتی رہتی ہیں۔۔۔۔اور اب تو میں ان کی عبارت دیکھ کر ان ای میلز کو مٹا دیتا ہوں۔۔۔۔کیونکہ مجھے ہمیشہ سے یہ لگتا ہے کہ خدا نے مجھے کسی ارفع مقصد کے لئے دنیا میں بھیجا ہوا ہے۔۔۔۔۔
میرے انہی ارادوں کی خبر نجانے کیسے میرے دوستوں کو ہوتی رہتی ہے ، اس لئے وہ مجھے اپنے عزائم کے حوالے سے ای میلز کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔کسی کا مقصد انڈیا کے جھنڈے سے پہلے پاکستان کے جھنڈے پر ایک لاکھ لایک اکٹھے کروانا ہے اور کوئی وسیم اکرم اور وقار یونس کی بہترین باولنگ کا فیصلہ مجھ سے کروانے پر بضد ہے۔۔۔۔۔
کسی سرحد پر لیٹا ہوا ذخمی سپاہی کسی پٹاخہ سے ہیروئیں سے زیادہ لایک حاصل کر پائے گا نہیں۔۔۔کسی کا مقصد اپنے کسی عزیز کی تصویر پر زیادہ لایک حاصل کرنا ہے تاکہ وہ کسی مقابلے میں سب سے خوبصورت بچہ مان لیا جائے۔۔اور گاہے گاہے لوگ میرے ایمان کی مضبوطی اور پائیداری چیک کرنے کے لئے ۔۔۔۔۔مختلف دینی پیغامات کو شئیر کرنے کی خوشخبریاں سناتے ہیں اور شئیر نہ کرنے کی صورت کو بددعاوں اور صلواتوں تک اتر آتے ہیں۔۔۔لوگوں کے ان مقاصد سے ہٹ کر میں میں خود بھی دنیا تبدیل کرنے کا جو تفصیلی منصوبہ رکھتا ہوں اس پر مسلسل سوچتا رہتا ہوں۔
میرا اب زیادہ تر وقت انٹرنیٹ پر ہی گذرتا ہے۔ صبح سو کر اٹھتا ہوں تو گھر کی ونڈو کھولنے سے پہلے کمپیوٹر کی ونڈر پر دستک دیتا ہوں، رات بھر میرے انتظار میں پگھلتے ہوئے انٹرنیٹ کے بے شمار دانشور اپنے طرح طرح کے منصوبوں کے ساتھ میرے منتظر رہتے ہیں۔
ان دانشوروں کی زبان اور تلفظ کو سمجھنا گو کہ کسی بھی کم دانش مند کے بس سے باہر مگر پھر بھی ان کے صفحات لائکس سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ کسی کو پسند کرنے والے لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں میں پہنچ گئے ہیں اور کسی کے چہرے کو فیس بک کے چمکتے چہرے کا خطاب مل گیا ہے۔ یہ بڑے شوق سے اپنی سالانہ کارکردگی کی دو منٹ کی ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کرتے ہیں اور ہرہر دوست کو اس میں ٹیگ کرنا بھی اپنا فرض گردانتے ہیں۔ ان کی جیبوں میں گوگل ایڈز کی مد میں لاکھوں کمانے کے بے شمار منصوبے ہوتے ہیں تو کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اب یہ ہنر لوگوں کو سکھانا شروع کر دیا ہے۔ لوگوں سے فیس کے نام پر دو دو ہزار اکٹھا کر کے ان کو انٹرنیٹ پر لاکھوں کمانے کی تربیت دیتے ہیں۔ ایسے لوگ وقتا فوقتا فدوی کو بھی ایک امیر آدمی دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن نجانے کیوں میرا دل امیر بننے کو نہیں کرتا۔۔۔وہ بھی اس قسم کی امارت جس کے لئے آپ لوگوں کو کسی نظر کے دھوکے میں مبتلا کرکے اپنے اشتہار پر کلک کروا لیں۔
ایسے دانشور ہر وقت لوگوں کے جذبات میں ایک تلاطم سا برپا کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ سامان تیار رکھتے ہیں، جیسے بھیڑ میں والدین سے بچھڑ جانے والے روتے ہوئے بچے۔۔۔۔۔۔۔کسی ان دیکھے ٹرین حادثے کا شکار ایک بوڑھا، گھر کا راستہ بھولی ہوئی ایک ذہنی مریضہ، ۔۔۔اور پھر لوگ دھڑا دھڑا کسی کو گھر پہچانے کے لئے ان کی تصویر بانٹتے جاتے ہیں۔ ۔۔۔فیس بک پر دو چار بندے نجانے کب کے مرچکے ہیں لیکن ان کی تصاویر روز کوئی نہ کوئی تازہ بہ تازہ پوسٹ کرتا رہتا ہے۔
انہی دانشوروں میں ایک قسم ایسے دوستوں کی ہے جن کا مقصد لوگوں کو ان کی ویب سائٹس کی سیکورٹی کی خامیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ یہ ازراہ اصلاح لوگوں کی ویب سائٹس کو ہیک کرتے ہیں۔ ان کی ویب ہر ایک پیغام چھوڑتے ہیں جس کے کم و بیش یہی معنی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
اوئے بکری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دنیا میں واضح تبدیلی لانے کے جس منصوبے پر میں عمل پیرا ہوں، اس کے لئے مجھے درجنوں دانشوروں کی ضرورت ہے دن بھر میں دو چار سادہ اور پانچ چھ گھٹیا لطیفے جن کی فیس بک کی دیوار پر نظر آتے ہیں۔ اور کسی نہ کسی ایپ کے ذریعے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ محترم کینڈی کریش کے کس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں یا ان کے فیس بک کے فارم ہاوس میں کھیروں کی فصل پک چکی ہے۔۔۔لیکن جونہی ان سے رابطہ کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ آنے والے چھ ماہ کے لئے سخت مصروف ہیں۔
انہی لوگوں کے غیر سنجیدہ رویوں کے پیش نظر میرے بے شمار منصوبے ادھورے پڑے ہیں، اور ادھر میرے گھر والوں میں یہ تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ مجھے کسی ذہنی مرض نے آ گھیرا ہے۔ میرا ہر وقت کمپیوٹر پر کام کرنا ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ سب باتیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن جونہی میں انٹری دیتا ہوں تو باتیں سرگوشیوں میں بدل جاتی ہیں۔ نجانے کیا کھسر پھسر کرتے ہیں۔ ۔۔مجھے مخاطب کر کے وہ جتنی باتیں کرتے ہیں ان مضامین کا تلخیص طعنے اور مہنے ہے
۔۔۔۔۔۔
یہ سچ ہے کہ منزل کی جستجو میں آپ کو ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ لیکن میرے انٹرنیٹ کے دوست ہمیشہ میری ڈھارس بندھاتے ہیں کیونکہ پرانی نسل ہمارے مسائل سمجھنے سے قاصر ہے۔۔۔۔گھر والوں کا دل توڑ رویہ ، ساتھی طالب علموں کے چھبتے ہوئے فقرے، اور ساتھی بلاگرز کے میرا بلاگ لائک نہ کرنے کا دکھ ۔۔۔۔۔کل اس پردہ نشین سے چیٹ کرتے کرتے میں اتنا جذباتی ہوا کہ وہ بھی جذبات کی رو میں بہہ گئی۔۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔تم بہت سادہ ہو۔۔۔بہت سادہ۔۔۔تم جیسے آدمی کو مزید دھوکا نہیں دے سکتی۔۔۔۔۔یہ جو سب کلاس فیلوز کو تمہاری نئی فیس بک فرینڈ کا پتہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔یہ سب میرا قصور ہے۔۔۔۔تمہیں پانچویں بار پانچ مختلف ناموں سے دوستی کر چکی ہوں۔۔۔اور میرا نام ہے۔۔۔۔۔۔وقار شریف۔۔۔۔۔۔۔سوری ماموں جی۔۔۔مجھے معاف کر دیجئے گا۔