

بس ایسے ہی جیسے میلے میں ایک بچہ ہر رنگ کے پیچھے کچھ دیر کو دوڑتا ہے، ہر تماشے کے پاس رکتا ہے، ہر کھابے پر للچاتا ہے۔۔۔۔بس دیکھتے دیکھتے گذر جاتا ہے۔۔۔مگر ان آنکھوں کو خواب جیسے بیماری کبھی نہیں لگی۔۔۔اب بھی دل میں کچھ خوابوں کے خیال آتے ہیں مگر خواب نہیں آتے۔۔
کچھ آرزوئیں سی ہیں، جن کو خواہش بھی نہیں کہہ سکتا۔۔
ابن انشا کی ایک چھوٹی سی نظم ہے دہرائے دیتا ہوں
ایک چھوٹا سا بچہ تھا جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا بچہ تھا میں جن دنوں
خیر۔ محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
نا رسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
مگر وہ چھوٹا سا الہڑ سا لڑکا کہاں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے وہ حسرتیں تھیں جو دل ہی دل میں پلتی رہیں، کوئی کہانی اور نظم بھی نہ بن پائیں۔