اطمینان نہیں ہے۔۔۔
بس اطمینان نہیں ہے۔۔
مجھ سمیت وہ سارے دوست بھول گئے ہیں کہ انھوں نے زندگی کا آغاز کہاں سے کیا تھا۔ گرمیوں کی دوپہروں میں اپنے امتحانوں کی دنوں میں بھی دودو ٹیوشنیں پڑھانے والے اگر پچاس لاکھ جیب میں ڈالے پھرتے ہیں تو کیا کم ہیں؟ لوگوں سے ایڈوانس کے نام پر دس دس ہزار اکھٹے کرنے والے اگر چھوٹی ہی سہی اپنی کمپنی کے مالک ہو گئے ہیں تو کیا کم ہے؟ اور جن کی آنکھوں میں خوابوں کے سوا کچھ تھا ہی نہیں اور آج کسی علاقے کے اعلی ترین سرکاری افسر ہیں تو کیا کم ہے؟
بس ہوا یوں ہے کہ اب اردگرد کے ماحول نے ہمیں ایسا احساس غربت دیا ہے جو دل سے جاتا ہی نہیں ہے۔ زندگی تو بہت بہتر ہو چکی ہے۔ خدایا تیرا شکر ہے۔
بس ہم نے اپنی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو منانا نہیں سیکھا۔ اس آغاز کی طرف تو ہم کم ہی دیکھتے ہیں، جہاں سے ہم چلے تھے۔۔۔