Home Uncategorized جامعہ زرعیہ میں بڑھتی ہوئی فیسیوں کا رونا دھونا

جامعہ زرعیہ میں بڑھتی ہوئی فیسیوں کا رونا دھونا

0
جامعہ زرعیہ میں بڑھتی ہوئی فیسیوں کا رونا دھونا

مجھے اپنی زندگی سے جو گلے رہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مجھے کام ہمیشہ اپنے گھر سے دور ملا،ایگری کلچر یونیورسٹی فیصل آباد میں پڑھتے ہوئے ٹیوشن پڑھانے کا آغاز کیا اور پہلی ٹیوشن ڈی گراونڈ کے پاس ملی، جو میری قیام گاہ سے  تیس منٹ سائیکلنگ کی مسافت پر تھی ، اور ستم ظریفی دیکھئے کہ میرے ہم کمرہ دوست نے ٹیوشن پڑھانے کا آغاز کیا تو  اسے یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر جناح کالونی میں ٹیوشن ملی، میں نے سوچا کہ میں بھی کوئی جگہ بدلنے کی کوشش کرتا ہوں، توپرانی ٹیوشن چھوڑی دی اور نئی کا انتظار کیا ،بالآخر ایک مہینہ فارغ رہا اورپھر اگلی ٹیوشن پہلے والی سے بھی دور ڈھیڈیوال کے پاس ملی۔۔۔۔پھر جب نوکری کا آغاز کیا تو ٹاون شپ  لاہور رہتا تھا اور جاب شملہ پہاڑی کے پاس تھی، پھر نسبت روڈ کے پاس منتقل ہوا تو جاب فیصل ٹاون چلی گئی، وہاں سے وفاقی کالونی آ گیا تو جاب رائیونڈ روڈ چلی گئی، پھر جوہر ٹاون شفٹ ہوا تو جاب تینتیس کلومیٹر ملتان روڈ چلی گئی، اب بھی اگر کوپن ہیگن میں کی جانے والی مزدوریوں کا زائچہ نکالوں تو حساب عمر کا گوشوارہ کچھ یوں بنتا ہے 

چین اب کہاں لمحہ بھر رہا ہے
سفر میرا تعاقب کر رہا ہے

زرعی یونیورسٹی  فیصل آباد میں دوران تعلیم ٹیوشنز پڑھا کر اپنے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنےوالے بے شمار دوست سر شام اپنے سایئکلوں پر شہر کے مختلف حصوں کا رخ کرتے اور رات کے پہلے پہر تک واپس ہاسٹلز میں پلٹ آتے۔ میں نے بے شمار لڑکوں کو دیکھا جنہوں نے صرف ٹیوشنز کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کی بلکہ اپنے گھر کی معیشت کو بھی سہارا دیا۔ تیرہ چودہ سال پہلے یونیورسٹی کی فیس چار پانچ ہزار سے زیادہ نہ ہوتی تھی، اور لوگ باآسانی دو ٹیوشنز پڑھا کر مہینے کا تین چار ہزار اکٹھا کر لیا کرتے تھے۔  کھانے پینے کے زیادہ سے زیادہ اخراجات دو تین ہزار ہوا کرتے تھے۔ اور کچھ پس انداز کر کے سمیسٹر کے آخر میں فیس دینے کے پیسے نکل ہی آتے تھے ۔ یہ اخراجات بھی کچھ آخری سالوں کے بتا رہا ہوں وگرنہ ابتدائی سالوں میں سارے مہینے کے میس کے اخراجات سات ،آٹھ سو زیادہ نہ ہوتے تھے۔ 
پچھلے ایک ہفتے میں  مادر علمی سے دو طالب علموں نے رابطہ کیا ہے۔ ان دونوں کی کہانی ملتی جلتی ہے کہ یونیورسٹی کی فیس دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ دونوں کے والدین سرکاری ملازم ہیں۔ اور سمیسٹرکی فیس ادا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ میرے پوچھنے پر سمیسٹر کی فیس کی جو تفصیلات پتہ چلی ہیں وہ واقعتا ہوش اڑا دینے والی ہیں۔ دن کے طالب علم  کی پہلے سمیسٹر کی فیس49600 روپے ہے اور باقی تین سیمسٹرز کی فیس 34600 روپے ہے جبکہ شام کے طالب علم کی فیس  72000 اور باقی تین سمیسٹر 60000 روپے ہے۔ ایک سرکاری ادارے کی فیس میں اس قدر اضافہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا یونیورسٹی نے اپنی سہولیات میں کچھ اضافہ کردیا ہے، بنچ اٹھا کر صوفہ سیٹ لگا دیئے ہیں، یا اب ہوسٹلز سے لوگوں کر بگھیوں پر کلاس روم میں لایا جاتا ہے؟ یا شاید کچھ کتابیں وغیرہ دینا شروع کر دی ہیں۔ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے دوستوں کے توسط پتہ چلا ہے کہ ان کی شام کی کلاسز کی  پہلی فیس چالیس ہزار ہے اور باقی تیس تیس ہزار کے قریب ہیں جبکہ اگر دن کی کلاسز کا مقابلہ کیا جائے تو فیس کا آغاز بیس ہزار کے قریب ہوتا ہے، پینجاب یونیورسٹی لاہور کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ ان کی فیس جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے مقابلہ میں تقریبا نصف ہے۔ 

تو پھر جامعہ زرعیہ فیصل آباد کی فیس زیادہ کیوں ہے؟ یا اتنی کیوں ہے؟ شاید اس لئے کہ جامعہ زرعیہ اب ایک سو پینسٹھ ڈگری پروگرام کرانے والا ادارہ ہے، یا اس لئے اس کی فیس زیادہ ہے کہ کچھ رینکنگز کے مطابق پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہے جو پہلے سو نمبروں میں آتی ہے۔  

جامعہ زرعیہ فیصل آباد  کی رینکنگز کے متعلق کچھ اعداو شمار درج ذیل ہیں۔ 
1. QS World Universities Ranking (2014) in Agri. & forestry;  139th position in the world  25th poistion in Asia
 2. NTU Ranking 2013 in Agricultural Sciences;  98th position in the world  20th poistion in Asia Pecific
 3. UI Green Metric World University Ranking 2013, declares the UAF 35th best in professional universties worldwide
 4. HEC Rankings 2013;  1st position in the Agriculture/Veterinary  2nd position based on ISI indexed publications 2012 5. Pakistan Council for Science & Technology (PCST) Ranking 2013  1st position in Pakistan 


ایک ادارے کی قدر ومنزلت میں اضافے کا ثبوت بڑھتے ہوئے طالب علم ہیں، اور ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ طالب علموں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ فیس کی مد میں ہونے والا اضافہ کچھ برابر ہوتا  چلا جاتا۔۔۔۔لیکن انیس ہزار طالب علموں کے آ جانے سے بھی ہر طالب پر پڑنے والا بوجھ بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ 
جامعہ زرعیہ فیصل آباد جیسی معتبر علمی درسگاہ جو کسانوں، محنت کشوں اور عام آدمیوں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتی آئی ہے ، کیا اس کےدوازے عام آدمی پر بند ہونے کو ہیں؟
کیا پاکستان کی  سرکاری نوکری کرنے والے اب اپنے بچوں کو سرکاری اداروں میں بھی تعلیم نہیں دلوا پائیں  گے؟ گریڈ سترہ کے ملازمین کی تنخواہیں بھی ابھی ایسی نہیں کہ دو تین بچوں والا گھرانہ اپنے اخراجات کے ساتھ اپنے کسی بچے کو کسی سرکاری ادارے میں تعلیم دلوانے کا خواب ہی دیکھ سکے؟  
مجھے یقین ہے جامعہ زرعیہ کسی شدید مشکل میں ہی ایسا فیصلہ کر سکتی ہے کہ طالب علموں پر اس قدر بوجھ لاد دیا جائے، کیونکہ پاکستان کے تعلیم کے بجٹ کی مد میں رکھے جانے والے پیسوں سے جو حصہ ان اداروں کو ملتا ہوگا ہرگز بھی اتنا نہ ہوگا کہ کسی ادارے کے روزمرہ نپٹائے جا سکیں۔ 
مگر حکومتی ادارے ، غیر حکومتی ادارے نئی نسل کے راستے میں جو دیوار کھڑی کرنے جا رہے ہیں نجانے کتنے اس سے سر پھوڑ کر مر جائیں گے۔ 
ترقی یافتہ ممالک اپنے لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے ان کے وظائف کا بندوبست کرتے ہیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس کام میں لگ سکیں اور ہمارے ہاں جو کرنا بھی چاہتا ہے اس کے پاوں میں زنجیریں ڈالی جا رہی ہیں۔ 
کیا ملک میں کوئی ہے ہے جو ان سفید پوشوں کا بھرم ٹوٹنے نہیں دے ؟ کیا اب سرکاری یونیورسٹی میں بچے پڑھانے کے لئے زمین بیچنی پڑے گے؟  
وہ جن کی غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کریں اور وہ خود کوزکوہ کا حق دار گردانیں، ان کے تعلیمی اخراجات کیونکر پورے ہوں گے؟ 

دو ٹیوشنز پڑھا کر اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے والے اب کونسا کام کریں کہ ان کی تعلیم کا خرچ پورا ہو سکے، کیا کسی ہوٹل پر برتن مانجھ کر، کسی دکان کی چوکیداری کر کے، یا کوئی بھی پارٹ ٹائم کام کر کے پچاس ہزار روپیہ کمایا جا سکتا ہے۔
گوکہ اب ٹیوشن فیس میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن پھر بھی ایک عام طالب علم بمشکل آٹھ دس ہزار کما پاتا ہے۔۔ اگر لوگوں کی کمانے کی اہلیت میں اضافہ نہیں ہوا تو ان کے اخراجات میں اضافہ  کیونکر؟ ۔ خدارا کچھ تو سوچئے۔۔۔لوگوں سے تعلیم کا حق تو مت چھینیے ، یہ اعزاز تو مت چھینیے کہ انہوں نے اپنی تعلیم اپنی محنت کی کمائی سے حاصل کی تھی۔ 

۔ 
 من الحیث القوم ہمیں طے کرنا ہو گا کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان دینے کی صدائیں تو کب کی دب چکیں کیا اب عام آدمی سے تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی چھین لیا جائے گا۔
کیا لیپ ٹاپ بانٹنے والے، اور میٹرو چلانے والے تشنگان علم  کو سسکتا چھوڑ دیں گے؟ کیا خیرات کے نام پر خزانوں کے ڈھیر لگا دینے والی قوم اپنی درسگاہوں کی ضروریات کے بوجھ کو نہ بانٹے گی۔ 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.