مگر جہاں میں آنکھ جھپکوں گا وہیں پر حادثہ ہو گا کے خیال کے ساتھ چلتے چلتے آدمی تھکنے لگتا ہے۔۔۔
تمام عمر میں اٹھائے پھرا محبت کو
پھر ایک روز یونہی کہا یہ کیا مصیبت ہے
بس کسی روز آدمی تھک جاتا ہے، آسان زندگی کی آرزو میں طے شدہ راستے سے انحراف کا آغاز کرتا ہے۔۔۔۔اور اس معاشرے میں جہاں ہر راہ سے بھٹکا آسان زندگی گذار رہا ہو، بھٹکنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ کسی کے قائل کرنے کی بھی ضرورت نہیں، بس کسی روز دل طواف کوئے ملامت کو لے چلتا ہے، اور آدمی کسی وقتی آسانی کی خاطر ایک طویل راستے کا انتخاب کر بیٹھتا ہے۔
مجھے لگتا ہے لوگ طے شدہ راستوں سے انحراف اس لئے بھی کرتے ہیں کہ وہ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔ یا زندگی کا کھوکلا پن جب ہر کام کی لذت چھین لیتا ہے تو اس میں رنگ بھرنے کے لئے انسان نئی راہیں تلاش کرتا ہے۔ سنا ہے لوگ خود کو گم کرنے کے لئے گمراہی کے راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اپنی زندگی کی مہار کسی اور کے ہاتھ دے دیتے ہیں، پتوار سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں بس جدھر کی ہوا چلے۔
سچ کہیے کہ جب من کی کوئی مراد پوری ہی نہ ہو، جب آرزوں کا وصال میسر ہی نہ ہو ، تو انسان پر ایک لمحہ ایسا گذرتا ہے جس میں انسان اپنی زندگی سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔۔آ تجھے کسی قاتل کے حوالے کر دوں، لیکن ہماری زندگی کی کوشش کا حاصل یہی ہے کہ ہم زندگی کی باگ کسی کے حوالے کر دیں اور پھر مست و خراماں چلیں، مذہب بھی شاید یہی چاہتا ہے، اور دنیا بھی ، سب آپ کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں، اورکوشش کرتے کرتے ایک روز تھک جاتے ہیں، تو اس لمحہ وقت کو مقدر سے تعبیر کر لیتے ہیں،
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اپنی رضا کے حصول میں طے شدہ راستوں سے انحراف کروں گا اگلی دنیا میں جی نہ پاوں گا، یہی سوچ میری اس دنیا کی زندگی کے گلے کی پھانس بنی ہے، دل چاہتا ہے بس ایک جھکڑ سا چلے اور ساری سوچوں کو اپنے ساتھ اڑا لے جائے، ایک لمحہ ایسے گذرے جس میں اس ذہن کی قید سے آزاد ہو جاوں، سوچتا ہوں زندگی کی ڈور کسی کے حوالے کردوں، بس زندگی مشکل ہو گئی ، اب گذرتی نہیں، گلے میں اٹکی ہوئی ہے۔۔۔۔۔