
ایسے نہیں کہ میں کبھی بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہوں، یا خواجہ علقمہ کا شاگرد رشید، کبھی ان سے ملا بھی نہیں ہاں ایک بار دور سے دیکھا ہے اور ان کے ایک صدارتی خطبہ کو سنا ہے جب ایک کانفرنس سے وہ خطاب کر رہے تھے۔ مجھے ان کے لب و لہجے میں ایک استاد کی ساری عمر کا تجربہ جھلکتا صاف دکھائی دیا۔۔۔۔۔ان کی گفتگو انتہائی مدلل اور مناسب تھی۔ اور میرے دل نے کہا کہ اس شخص نے اپنے طالب علموں کو علم سے کچھ بڑھ کر بانٹا ہو گا۔ درباریوں اور خوشامدیوں کے جھرمٹ میں گھرا ہوا یہ استاد اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سٹیج پر جلوہ افروز ہوا ، اور کانفرنس کے بعد بھی درجنوں حواریوں نے انہیں ایک لمحہ بھی تنہا نہ ہونے دیا۔
ہمارے ملک میں چڑھتے سورج کے ساتھ ساتھ چلنے والےاپنی جھولیاں پھیلائے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور جونہی سورج کسی بدلی کی اوٹ کے پیچھے ہوا ان کا نام نشان بھی ملتا۔۔۔نیب کی عدالت میں آنکھیں نمناک کرنے والے استاد کی کہانی ان لوگوں کے لئے بھی نشان عبرت ہے جو طاقت اور اختیار کے دنوں میں ہر درباری کی آرزو اس کے کہنے سے پہلے پوری کر دیتے ہوں۔
پاکستان کے سرکاری محکموں میں کام کرنے والے جانتے ہیں کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے، ایک سرکاری آفیسر کے لئے سرکاری گاڑی پرائیویٹ استعمال کر لینا بھی اختیارات کا ناجائز استعمال ہے، اور دفتر کے کسی ملازم سے گھر کا کام لینا بھی۔۔۔۔لیکن خواجہ صاحب والے معاملے میں ایک پورے پرائیویٹ کمپیس کا معاملہ ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کا لاہور کیمپس باوجود سنڈیکیٹ کے اعتراضات کے وائس چانسلر نے منظور کر دیا تھا اور وائس چانسلر سینڈیکیٹ کی مشاورت کے بغیر ایسا کرنے کے مجاز نہ تھے۔یہ کیس پچھلے دو سالوں سے آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ جب تک خواجہ علقمہ وائس چانسلر رہے ہوائیں بھی موافق چلتی رہیں، اب کچھ دو ہفتے پہلے ان کو یونیورسٹی سے گرفتار کر لیا گیا۔۔۔وہ درودیوار جو ایک استاد کے ایک عام استاد سے جامعہ کے اعلی ترین عہدے پر پہنچنے کے گواہ تھے انہوں نے وہ بدنصیب لمحے بھی دیکھے، اور وہ لمحہ اس سے بھی بھیانک تھا جب انہیں ہتھکڑیوں کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
معاملات جس بھی نوعیت کے تھے ایک استاد کے مرتبے کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے تھا۔ مگر افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا۔