انقلاب شمشیر سے جنم لیتے ہیں
جنابِ صدر! دیوار چین کے سائے میں پلے ماو رے تنگ کے اتحادیوں سے لیکر روس
کی کمیونزم زدہ وادیوں میں سرخ سویرا تلاش کرنے والے دہقانوں تک جس جس شخص
نے انقلاب کے قدموں کی چاپ سنی وہ سمجھتا ہے کہ شمشیر و سناں اول طاؤس و
رباب آخر۔بروٹس کی چاپلوسی سے سرنے والے سیزر کی کایا پلٹ مہمات سے لیکر
مقدونیہ کے سکندر کی وادی جہلم میں پھنسی ہوئی فاتح فوج کے مغرور سپاہی تک
جس جس نے انقلاب کے علم کو سلامی دی تھی سمجھتا ہے کہ انقلاب سور ماؤں کی
میانوں کی دھول سے جھڑ تا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کی ہلالی تلوار سے مفتوح
صلیبی شکست خوردہ راڈرک شیر دل سے لیکر ہر ملک کے ملکِ خدائے ما است کا
نعرہ بلند کر نے والے طارق بن زیاد تک ہر جری یہ سمجھتا ہے کہ انقلاب کے
چہرے پر اپنے ہی بحری بیڑوں کی راکھ ملنا پڑتی ہے۔ ابراہیمؑ کے ہاتھوں سے
پاش پاش ہو نے والے بتوں کے سردار کے کندھے پر پڑے کلہاڑے سے لیکر محمدؐ
عربی کے ہزاروں کے مقابل آنیوالے 313کا ہر ہر ا ول سمجھتا ہے کہ جنت
تلواروں کے سایوں تلے ہی ڈھونڈنی پڑ تی ہے۔ 47کے بٹوارے میں بٹ جا نے
والے چھ لاکھ جسموں سے ایران خا منائی انقلاب کا نظارہ کر نے والی ہر
شاہراہ علی الاعلان پکارتی ہے کہ انقلاب کے ماتھے پر لہو کی لالی سیندور
کا کام دیتی ہے۔جی ہاں جناب والا انقلاب شمشیر سے جنم لیتے ہیں۔
جنابِ صدر! انقلاب کی آبیاری مکھا وٹوں کی نیلاہٹ سے نہیں لہو کی لالی سے
کی جاتی ہے۔ کیونکہ جب کھلیانوں کی بھٹیوں میں درانتیاں پگھلا کر تلواریں
بننے لگیں ۔خیموں کی چوبیں نیزوں کا کام کر نے لگیں۔ بانس کے بمبو
کلہاڑیوں کے دستوں میں ڈھلنے لگیں ، کیکر کے کانٹوں سے فائلیں نتھی ہو نے
لگیں۔ سپاہیوں کے بھا لوں کی چمک میں سہاگنوں کی بالیوں کی چمک اتر آئے۔
بندوقوں کے کناروں پر تیز دھارسنگینیں سجنے لگیں۔ جیالوں کے کندھوں پر امام
ضامن کی ڈوریاں بندھنے لگیں۔ ٹینکوں کے باڑوں کے سامنے جسم بارود بننے
لگیں تب کہیں جا کر انقلاب کے الف کی نقاب کشائی ہوا کر تی ہے۔
جناب صدر! انقلاب کتاب اور نصاب بدلنے کا نام نہیں بلکہ نظام بدلنے کا نام
ہے۔ اور نظام کی تبدیلی کیلئے شمشیر کی لو سے روشن قندیلوں کی ضرورت پڑتی
ہے۔
جنابِ صدر! دیوار چین کے سائے میں پلے ماو رے تنگ کے اتحادیوں سے لیکر روس
کی کمیونزم زدہ وادیوں میں سرخ سویرا تلاش کرنے والے دہقانوں تک جس جس شخص
نے انقلاب کے قدموں کی چاپ سنی وہ سمجھتا ہے کہ شمشیر و سناں اول طاؤس و
رباب آخر۔بروٹس کی چاپلوسی سے سرنے والے سیزر کی کایا پلٹ مہمات سے لیکر
مقدونیہ کے سکندر کی وادی جہلم میں پھنسی ہوئی فاتح فوج کے مغرور سپاہی تک
جس جس نے انقلاب کے علم کو سلامی دی تھی سمجھتا ہے کہ انقلاب سور ماؤں کی
میانوں کی دھول سے جھڑ تا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کی ہلالی تلوار سے مفتوح
صلیبی شکست خوردہ راڈرک شیر دل سے لیکر ہر ملک کے ملکِ خدائے ما است کا
نعرہ بلند کر نے والے طارق بن زیاد تک ہر جری یہ سمجھتا ہے کہ انقلاب کے
چہرے پر اپنے ہی بحری بیڑوں کی راکھ ملنا پڑتی ہے۔ ابراہیمؑ کے ہاتھوں سے
پاش پاش ہو نے والے بتوں کے سردار کے کندھے پر پڑے کلہاڑے سے لیکر محمدؐ
عربی کے ہزاروں کے مقابل آنیوالے 313کا ہر ہر ا ول سمجھتا ہے کہ جنت
تلواروں کے سایوں تلے ہی ڈھونڈنی پڑ تی ہے۔ 47کے بٹوارے میں بٹ جا نے
والے چھ لاکھ جسموں سے ایران خا منائی انقلاب کا نظارہ کر نے والی ہر
شاہراہ علی الاعلان پکارتی ہے کہ انقلاب کے ماتھے پر لہو کی لالی سیندور
کا کام دیتی ہے۔جی ہاں جناب والا انقلاب شمشیر سے جنم لیتے ہیں۔
جنابِ صدر! انقلاب کی آبیاری مکھا وٹوں کی نیلاہٹ سے نہیں لہو کی لالی سے
کی جاتی ہے۔ کیونکہ جب کھلیانوں کی بھٹیوں میں درانتیاں پگھلا کر تلواریں
بننے لگیں ۔خیموں کی چوبیں نیزوں کا کام کر نے لگیں۔ بانس کے بمبو
کلہاڑیوں کے دستوں میں ڈھلنے لگیں ، کیکر کے کانٹوں سے فائلیں نتھی ہو نے
لگیں۔ سپاہیوں کے بھا لوں کی چمک میں سہاگنوں کی بالیوں کی چمک اتر آئے۔
بندوقوں کے کناروں پر تیز دھارسنگینیں سجنے لگیں۔ جیالوں کے کندھوں پر امام
ضامن کی ڈوریاں بندھنے لگیں۔ ٹینکوں کے باڑوں کے سامنے جسم بارود بننے
لگیں تب کہیں جا کر انقلاب کے الف کی نقاب کشائی ہوا کر تی ہے۔
جناب صدر! انقلاب کتاب اور نصاب بدلنے کا نام نہیں بلکہ نظام بدلنے کا نام
ہے۔ اور نظام کی تبدیلی کیلئے شمشیر کی لو سے روشن قندیلوں کی ضرورت پڑتی
ہے۔