جناب صدر! انقلاب ایک ایسی روشن سحر ہے جس کا اجالا بلا تفریق مذہب و ملت
ہر امیر اور غریب کے گھر میں برابر اترتا ہے۔ انقلاب آدم کے اندر کی آواز
کا نقیب ہے جب وہ ظاہر کی زنجیروں کو ایک جھٹکنے میں توڑنے کی ہمت جمع کر
تا ہے۔ انقلاب ایک ایسے دور کا امین ہو تا ہے جہاں کوئی کسی کا حق نہیں مار
تا، جہاں عجمی اور عربی برابر کر دیئے جاتے ہیں۔ انقلاب شجاعت کی وہ کڑی
ہے جب دشمنوں کی کھو پڑیوں میں شرابیں پینے والے دشمنوں کیلئے ڈنکے کی چوٹ
پر معا فیوں کی اعلان کر نے لگیں۔ انقلاب دیانت کے اس تسلسل کا نام ہے جب
بیچنے والے کی چیز کی اصلیت جانتے ہوئے اس کے مانگے سے زیادہ دام دیئے جاتے
ہوں۔ انقلاب اطاعت کے اس وسیلے کا نام ہے جب ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چند
دیوانے پتھروں کی بارش میں نکل آئیں۔ انقلاب اس وجاہت کا نام ہے کہ دشمن کو
فتح کے بعد بھی عزت سے نواز ا جائے۔ انقلاب سوچ کے اس دھارے کا نام ہے جب
کسی قوم کی تقدیر یوں پلٹا کھا ئے کہ اس کو قوم کو اسی قوم کے ماضی سے
ملایا جائے تو فرق واضح کر ے۔
ہاں انقلاب آ چکا ہے۔ انقلاب تو یہ ہے کہ نظام سلطنت کی بنیادیں یوں بدلیں
کہ وہ نظامت عوام بن جائے۔ انقلاب تو یہ کہ سار بانوں کو جہا نداری مل
جائے۔ بے گانوں کو جہا نگیر ی مل جائے۔ اور کائنات ہست و بود کا نقشہ یوں
بدلے کہ کہنا پڑے
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
جنابِ صدر! ہم انقلاب کو جتنے چاہیں نام سونپ دیں مگر اس میں تلوار کا مطلب
ہر گز بر آمد نہیں ہوتا۔ کیونکہ تلوار غنڈا گردی کی اجارہ داری کا عنوان تو
ہو سکتی ہے انقلاب کا پیش خیمہ کبھی نہیں ہو سکتی اگر تلوار سے انقلاب بر
پا ہو سکتے تو لاکھوں انسانوں کی کھوپڑیوں سے بغداد و ثمر قند میں مینار
بنانے والے چنگیز و ہلاکو کے نام لیوا آج دنیا کی عنان اپنے ہاتھوں میں لئے
ہوتے۔ اگر تلوار انقلاب پر پا کر سکتی تو پرل ہاربر پر رات ورات شب خون
مارنے والے اس دنیا کی سپر پاور بن چکے ہو تے۔ اگر تلوار انقلاب بر پا کر
سکتی تو پیغمبران خدا اپنے واعظ کی علامت تلوار کو بناتے۔ اگر تلوار انقلاب
برپا کر سکتی تو صلح حدیبیہ کی تاریخیں کبھی رقم نہ ہو تیں۔ اگر تلوار
انقلاب بر پا کر سکتی تو المسلم اخوا لمسلم کے بندھن کبھی نہ بندھتے۔ اگر
تلوار انقلاب بر پا کر سکتی تو 40سالوں کی لڑائیاں تلوار ہی کے دم سے حل
ہوتیں ۔ اگر تلوار انقلاب بر پا کر سکتی تو دو عظیم جنگوں کے بعد دنیا ئے
عالم کا نقشہ بدل چکا ہوتا۔ اگر تلوار انقلاب پر پا کر سکتی تو پاکستان و
بھارت تین جنگیں لڑنے کے بعد کسی نئی جنگ کی تیاری میں مشغول ہوتے۔
جناب صدر! انقلاب نوک تلوار سے نہیں نوک قلم سے جنم لیتا ہے۔ کیونکر اگر
انقلاب صنعت میں آئے تو سٹاک ایکسچینج کی شرحیں لکھنے کو قلم آیا کرتے ہیں
تلواریں باہر کھڑے چوبداروں کی علامت بن جاتی ہیں۔ اگر انقلاب زبان میں آئے
تو ’’اردو کے معلیٰ‘‘ کے علاقے ترتیب دینے والے تلوار کی دھار پر نہیں قلم
کی قابلیت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر انقلاب حکومت میں آئے تو تلواروں کی
بھٹیاں نہیں فورٹ ولیم کالجوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔اگر انقلاب مذہب میں
آئے تو تلواروں کی نوک پر بیعت نہیں ہوتی بلکہ قلم کی نوک نئے فتح مبین کی
نوید تحریرکرتی ہے۔اگر انقلاب سیاست میں آئے تو سب سے پہلے قانونی قبلے
متعین کئے جاتے ہیں۔ اگر انقلاب چین میں آئے تو ماؤ زے تنگ کا مارچ تلوار
نہیں قلم کی چھاؤں تلے طے ہوتا ہے۔اگر انقلاب فرانس میں آئے تو اس کی شرحیں
سب سے پہلے رال پال سارکر کا قلم تحریر کرتا ہے۔اگر انقلاب ایران میں آئے
تو خون کے ہر قطرے سے پہلے قلم کی نوک سے نکلنے والی سیاہی امن کی سرحدیں
متعین کر تی ہے۔ اگر انقلاب عرب میں آئے تو چند ناقابل یقین شرطوں پر صلح
بھی بیعت رضوان کا روپ دھار لیتی ہے۔اگر انقلاب ہندوستان میں آئے تو اس کی
سمتیں جنرل ڈائر کی گولیوں کے 14نکات کی روشنائی کرتی ہے۔اگر انقلاب
پاکستان میں آئے تو اس کی ترتیب بھی وہی ہوگی جو کسی دانشور کا قلم کر ے گا
کسی سپاہی کی تلوار نہیں کیونکہ تیر و تلوار کی اس جنگ میں ہر قطرہ خون
جو لہو ہو گا وہ انقلاب کی راہ میں تو ہوگا مگر اس لہو کی سمت وہی شرح اور
سوچ متعین کر ے گی جو نوک قلم سے آغاز ہو گی۔