’’انقلاب قلم سے جنم لیتے ہیں‘‘
جناب صدر! عظمت لوح و قلم کی قسم انقلاب قلم سے جنم لیتے ہیں کہ انقلاب
آہٹ ہے آنے والے پل کی جس میں کوئی سانحہ ہو جائے، حادثہ ہو جائے۔ انقلاب
تبدیلی و سوچ کا عنوان ہے جب قوموں کا تفکر و تدبر نئے سانچوں میں ڈھلتا ہے
۔ انقلاب امین ہے وقت کے اس دھارے کا جس کو نئی سمت میں بسنا ہے۔ انقلاب
طرز کہن کی بدلتی روش کا نام ہے۔ انقلاب جیسا بھی ہو اور جس سمت میں بھی اس
کی حدوں کا احاطہ بس ’’قلم‘‘ کر تا ہے۔ کیونکہ ’’قلم‘‘ استعارہ ہے اس لکھت
کاجو ہو کر رہے گا۔ قلم استعارہ ہے لوح محفوظ پر ثبت شدہ نقو ش کا جو
ہماری دنیا میں تقدیر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ قلم استعارہ ہے تدبیر و
تحریر کا جس کے توسط سے ہر قول و فعل کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔ قلم
استعارہ ہے اس کاوش کا جو انسانیت کے انس کے ساتھ تعبیر ہے۔ قلم و شمشیر کے
اس موازنے میں شبیہ و صورت کے حوالے سے تلوار کو فوقیت دی جا سکتی ہے
کیونکہ تلوار غنڈہ گردی کا نشان تو ہو سکتی ہے تدبیر اور حکمت کا نہیں۔
جنابِ صدر! انقلاب کی آیت سے روشناس کان گواہی دیتے ہیں کہ مدینہ کے گلی
کوچوں میں صدا ابھری مسلمانو! شراب تم پر حرام قرار دے دی گئی پھر مہمانوں
کی تواضع میں پیش ہونے والے پیالے دیواروں اور بازاروں سے مار مار کر توڑ
دیئے گئے۔ مٹکوں کے مٹکے بہا دیئے گئے۔ یہ کیسا انقلاب تھا جس کیلئے ایک
حکم کی ضرورت تھی کوئی شمشیر بے نیام نہ ہوئی تھی۔
پھر انقلاب تو اس دن بھی آیا جس دن بے سرو سامان مہاجرین انصار کے بھائی
بھائی بنا دیئے گئے ۔ اس دن کس نے تلواروں کی چھناچھن سنی تھی؟
انقلاب تو اس دن بھی آیا جب بت پو جنے والوں کی زندگی میں اسلام آ داخل ہوا کتنے گواہوں نے شمشیر و سناں کا نظارہ کیا تھا۔
انقلاب تو اس دن بھی آیا تھا جس فصیل مفصل تصالہ نے ہر کمزور کی مدد کر نے
کیلئے حلف الفضول کا بدن باندھا تھا اس دن بے نیام تلوار کس نے دیکھی تھی۔
جناب صدر! ہر انقلاب قلم کی نوک سے آغاز ہوتا ہے۔ تلوار ایک فر ما نبردار
سپاہی کیطرح اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ کیوں انقلاب تو اس وقت آتا ہے جب سمے
کے سمندر پر کن فیکون لکھا جاتا ہے۔ انقلاب تو اس وقت بر پا ہوتا ہے۔ جب
شاہ بابل کا ہمورابی دنیا کا پہلا ضابطہ قوانین وضع کر تا ہے۔ انقلاب تو اس
وقت ہے جب کابل ما بعد الطبیعات کے نظر یات کا پرچار کرتا ہے۔ انقلاب تو
اس وقت آتا ہے جب سارے کا سارا چین
کنفیوشس کے افکار کا اعتبار کر تا ہے۔ انقلاب تو اس وقت آتا ہے جب پا نینی
کی سنسکرتی گرائمر قلم سے نکل کر لوگوں کے دلوں پر منقش ہوتی ہے۔ انقلاب تو
اس وقت آتا ہے۔ خوارزمی کا الجبرا ریاضی کے اصول بدل کے رکھ دیتا ہے۔
کوٹیلیاکی سیاست کے بنیادی قوانین حکومتوں کیلئے پہلا سنگِ میل ٹھہرتے
ہیں۔افلاطون کے اقوال عوام ا لنا س کیلئے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔ جب طبری
حقائق کے پردے چاک کر تا ہے تو ہر آنکھ خیرہ رہ جاتی ہے۔ ابن عربی وحدت کا
نیا فلسفہ پیش کر تا ہے۔ فارابی کی تحقیق دنیا کو حیران کر چھوڑتی ہے۔
غزالی اور کانٹ کے علمی نقاط مباحثوں کی سمتیں تبدیل کر دیتے ہیں۔ بو علی
علم کے سمندر سے غوطہ زن ہو کر گوہر آبدار بر آمد کر تا ہے۔ ابن طفیل سائنس
کی نئی جہتیں بیان کر تا ہے۔ انقلاب تو تب آتا ہے جب ملکوں کی سرحدوں کا
خواب ایک شاعر دیکھتا ہے۔ مراغہ میں رصد گاہیں تعمیر ہوتی ہیں۔ جب یو رپ
میں کیمبرج تخلیق ہو تے ہیں۔
جناب صدر! کس انقلاب کے ہاتھ میں تلوار یں تھیں ؟کمیونزم کا انقلاب لانے
والا کارل مارکس کوئی جنگجو نہ تھا ایک قلمکار تھا۔ ایران میں انقلاب لانے
والا آیت اللہ خمینی ایک درویش صفت عالم دین تھا۔ کوئی فوجی جرنیل نہ تھا۔
جناب صدر! عظمت لوح و قلم کی قسم انقلاب قلم سے جنم لیتے ہیں کہ انقلاب
آہٹ ہے آنے والے پل کی جس میں کوئی سانحہ ہو جائے، حادثہ ہو جائے۔ انقلاب
تبدیلی و سوچ کا عنوان ہے جب قوموں کا تفکر و تدبر نئے سانچوں میں ڈھلتا ہے
۔ انقلاب امین ہے وقت کے اس دھارے کا جس کو نئی سمت میں بسنا ہے۔ انقلاب
طرز کہن کی بدلتی روش کا نام ہے۔ انقلاب جیسا بھی ہو اور جس سمت میں بھی اس
کی حدوں کا احاطہ بس ’’قلم‘‘ کر تا ہے۔ کیونکہ ’’قلم‘‘ استعارہ ہے اس لکھت
کاجو ہو کر رہے گا۔ قلم استعارہ ہے لوح محفوظ پر ثبت شدہ نقو ش کا جو
ہماری دنیا میں تقدیر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ قلم استعارہ ہے تدبیر و
تحریر کا جس کے توسط سے ہر قول و فعل کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔ قلم
استعارہ ہے اس کاوش کا جو انسانیت کے انس کے ساتھ تعبیر ہے۔ قلم و شمشیر کے
اس موازنے میں شبیہ و صورت کے حوالے سے تلوار کو فوقیت دی جا سکتی ہے
کیونکہ تلوار غنڈہ گردی کا نشان تو ہو سکتی ہے تدبیر اور حکمت کا نہیں۔
جنابِ صدر! انقلاب کی آیت سے روشناس کان گواہی دیتے ہیں کہ مدینہ کے گلی
کوچوں میں صدا ابھری مسلمانو! شراب تم پر حرام قرار دے دی گئی پھر مہمانوں
کی تواضع میں پیش ہونے والے پیالے دیواروں اور بازاروں سے مار مار کر توڑ
دیئے گئے۔ مٹکوں کے مٹکے بہا دیئے گئے۔ یہ کیسا انقلاب تھا جس کیلئے ایک
حکم کی ضرورت تھی کوئی شمشیر بے نیام نہ ہوئی تھی۔
پھر انقلاب تو اس دن بھی آیا جس دن بے سرو سامان مہاجرین انصار کے بھائی
بھائی بنا دیئے گئے ۔ اس دن کس نے تلواروں کی چھناچھن سنی تھی؟
انقلاب تو اس دن بھی آیا جب بت پو جنے والوں کی زندگی میں اسلام آ داخل ہوا کتنے گواہوں نے شمشیر و سناں کا نظارہ کیا تھا۔
انقلاب تو اس دن بھی آیا تھا جس فصیل مفصل تصالہ نے ہر کمزور کی مدد کر نے
کیلئے حلف الفضول کا بدن باندھا تھا اس دن بے نیام تلوار کس نے دیکھی تھی۔
جناب صدر! ہر انقلاب قلم کی نوک سے آغاز ہوتا ہے۔ تلوار ایک فر ما نبردار
سپاہی کیطرح اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ کیوں انقلاب تو اس وقت آتا ہے جب سمے
کے سمندر پر کن فیکون لکھا جاتا ہے۔ انقلاب تو اس وقت بر پا ہوتا ہے۔ جب
شاہ بابل کا ہمورابی دنیا کا پہلا ضابطہ قوانین وضع کر تا ہے۔ انقلاب تو اس
وقت ہے جب کابل ما بعد الطبیعات کے نظر یات کا پرچار کرتا ہے۔ انقلاب تو
اس وقت آتا ہے جب سارے کا سارا چین
کنفیوشس کے افکار کا اعتبار کر تا ہے۔ انقلاب تو اس وقت آتا ہے جب پا نینی
کی سنسکرتی گرائمر قلم سے نکل کر لوگوں کے دلوں پر منقش ہوتی ہے۔ انقلاب تو
اس وقت آتا ہے۔ خوارزمی کا الجبرا ریاضی کے اصول بدل کے رکھ دیتا ہے۔
کوٹیلیاکی سیاست کے بنیادی قوانین حکومتوں کیلئے پہلا سنگِ میل ٹھہرتے
ہیں۔افلاطون کے اقوال عوام ا لنا س کیلئے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔ جب طبری
حقائق کے پردے چاک کر تا ہے تو ہر آنکھ خیرہ رہ جاتی ہے۔ ابن عربی وحدت کا
نیا فلسفہ پیش کر تا ہے۔ فارابی کی تحقیق دنیا کو حیران کر چھوڑتی ہے۔
غزالی اور کانٹ کے علمی نقاط مباحثوں کی سمتیں تبدیل کر دیتے ہیں۔ بو علی
علم کے سمندر سے غوطہ زن ہو کر گوہر آبدار بر آمد کر تا ہے۔ ابن طفیل سائنس
کی نئی جہتیں بیان کر تا ہے۔ انقلاب تو تب آتا ہے جب ملکوں کی سرحدوں کا
خواب ایک شاعر دیکھتا ہے۔ مراغہ میں رصد گاہیں تعمیر ہوتی ہیں۔ جب یو رپ
میں کیمبرج تخلیق ہو تے ہیں۔
جناب صدر! کس انقلاب کے ہاتھ میں تلوار یں تھیں ؟کمیونزم کا انقلاب لانے
والا کارل مارکس کوئی جنگجو نہ تھا ایک قلمکار تھا۔ ایران میں انقلاب لانے
والا آیت اللہ خمینی ایک درویش صفت عالم دین تھا۔ کوئی فوجی جرنیل نہ تھا۔