’انقلاب قلم سے نہیں شمشیر سے جنم لیتے ہیں‘‘
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمت مردانہ
یاسنجر و طغرل کا آئین جہا نگیری
یا مرد قلندر کے انداز ملو کانہ
جناب صدر! انقلاب کے سبھی راستے قلم سے نہیں شمشیر سے متعین ہوتے ہیں۔
کیونکہ قلم کے بس کی بات نہیں کہ قوموں کی جہانداری و جہاں بانی کر سکے۔
کیوں قلم کے بس کی بات نہیں کہ مفاد ملت کی نگہبانی کر سکے۔ کیوں قلم کے بس
کی بات نہیں کہ شرط انقلاب کی خشتِ اوّل کیلئے خون افشانی کر سکے۔ کیوں
کہ قلم کے بس کی بات نہیں کہ وہ وقت کی سمت کو متعین کر سکے۔ کیوں کہ قلم
کے بس کی بات نہیں کہ وہ اشہبِ زمانہ کیلئے تازیانے کا کام
کر ے۔ یہ حوصلہ شمشیر میں ہے جو شمشیر سے بھی ٹکر ائے تو بجلی کا روپ
دھارے۔ جو تدبیر و حکمت کے دروازوں کو وا کر نے کی کلید ہے۔ یہ حوصلہ مند
کیلئے ہارنے کے بعد بھی امید ہے ۔ شمشیر وقت کے دھارے کو موڑنے اور حوصلوں
کو جوڑنے کی رو داد ہو ا کر تی ہے۔
جناب صدر! تاریخ انسانی گواہ ہے جب کبھی بنی نوع انسان نے انقلاب کی تاریخ
رقم کی ہے تو اس کے کناروں کی ترتیب نوک شمشیر سے ہوئی ہے۔ دیبل کے ڈاکوؤں
کے مقابل مسلمانوں کی ایک بیٹی کسی قلمکار کو دعوت نہیں دیتی بلکہ شمشیر
کے دھنی بن قاسم کو آواز دیتی ہے۔ پھر وہ تلوار بے نیام ہو کر سندھ پر یوں
ٹوٹتا ہے کہ ڈاکوؤں کے ڈیرے کو باب الاسلام میں تبدیل کر دیتا ہے۔
میرے نبی ؐ کے فر مانوں کو پورا کر نے والے محمد بن قاسم اور طارق تلوار
جیسے سر کنڈوں کی قلمیں لیکر خون مسلمان سے سجیں ہوئی تلواریں سونت کر
میدان میں نکلتے ہیں تو تب جا کر قر طبہ کی مسجدوں کے مینار انقلاب عروج
مسلم کی گواہی دیا کرتے ہیں۔
جب ساری دنیا کے عیسائی پاپا ئے روم کے جھنڈ ے تلے ایک صلیب کو مرکز مان
کر جو ق در جوق جمع ہوتے ہیں تو مسلمانان عالم کا نشان ایک قلم نہیں صلاح
الدین کے نام سے منسوب ہو نے والی ہلالی تلوار بنا کر تی ہے۔ پھر وہ سپہ سا
لار اسی ہلال سے انقلاب کی ایسی نامیاتی سحر طلوع کر تا ہے جس میں
اندھیروں کا نام نہیں ہو تا۔
جناب صدر ! شمشیر علامت ہے طاقت کی شمشیر علامت ہے عروج کی اور انقلاب کی
سمتیں صرف اور صرف طاقت متعین کرتی ہے کیوں کہ انقلاب ایسی کیفیت ہے۔ جو
صدیوں کے بیتنے کا انتظار نہیں کرتی بلکہ لمحوں میں وقوع پذیر ہو ا کرتی
ہے۔ انقلاب کے سورج کا اجیالہ لمحوں میں روئے زمین پر پھیلتا ہے اسے وقت
اور صدیوں کے فاصلے طے
کر نے میں کوئی لمحہ درکار نہیں ہوتا ۔ جب قلم کے ذریعے انقلاب کی بات اگر
کی بھی جائے تو زندگی سالہا سال کچھوے کی رفتار سے رینگتی ہے تب کہیں کوئی
تبدیلی کے آثار معلوم ہو نے شروع ہو تے ہیں اور جب تک قلم کی بات لوگوں تک
پہنچتی ہے۔ تب تک انقلاب کا داعی زہر کا پیالہ پی چکا ہوتا ہے۔ اپنی زندگی
جی چکا ہو تا ہے۔
مجھے بتائیے وہ کون سا انقلاب تھا جو ارسطو کے قلم سے آیا وہ کون سی روشنی
تھی جس نے زمانہ بدلا اور وہ افلا طون کے افکار سے پھوٹی۔ سقراط کے زہر کے
پیالے نے سوائے اس کے اپنے نام کے کیا بچایا۔نٹشے کی تعلیمات سے کون سے
نظام کو متعین کیاہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ تبدیلیاں ہوئی مگر یہ
تبدیلیاں ایسی ہی تھیں جسے کوئی ورق سادہ پر سیاہی کے چھینٹے پھینک دے۔ مگر
شمشیر جب میدان میں اترتی ہے تو درو دیوار کے نقش بدل جاتے ہیں۔بابل و
نینوا کی تہذیبوں کے کھنڈ ر چلا چلا کر کہتے ہیں کہ یہاں کوئی انقلاب گزرا
تھا۔ چین و عرب کے صحرا ؤ ں کی وسعتوں میں تپتی ریگ پکارتی ہے یہاں انقلاب
گزرا تھا جس کو روکنے کیلئے دیواریں بنائی گئیں تھیں۔ چنگیز و ہلاکو کے
تعمیر شدہ میناروں کی ہیبتیں قسمیں اٹھاتی ہیں یہاں انقلاب نے قدم دھرے
تھے۔ کہ انقلاب جب آتا ہے تو لوگ ہی نہیں دھرتی ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔ پھر
سمندروں دریاؤں کا پانی گواہی دیتا ہے کہ ہاں اب تبدیلی آئی ہے ۔ کوہ
ہمالیہ کے مقابل لاشوں کے کوہ ہمالیہ بنتے ہیں۔ نظر یہ سے نظر یہ نہیں
تلوار سے تلوار ٹکراتی ہے تب کہیں جا کر انقلاب کی چھنا چھن سنائی دیتی ہے۔
اور قلم کے بس کی بات نہیں کہ وہ انقلاب کی سنہری زنجیر کو ہلا سکے یہ
شمشیر ہے جو انقلاب کی پہلی اور آخری تدبیر ہے۔
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمت مردانہ
یاسنجر و طغرل کا آئین جہا نگیری
یا مرد قلندر کے انداز ملو کانہ
جناب صدر! انقلاب کے سبھی راستے قلم سے نہیں شمشیر سے متعین ہوتے ہیں۔
کیونکہ قلم کے بس کی بات نہیں کہ قوموں کی جہانداری و جہاں بانی کر سکے۔
کیوں قلم کے بس کی بات نہیں کہ مفاد ملت کی نگہبانی کر سکے۔ کیوں قلم کے بس
کی بات نہیں کہ شرط انقلاب کی خشتِ اوّل کیلئے خون افشانی کر سکے۔ کیوں
کہ قلم کے بس کی بات نہیں کہ وہ وقت کی سمت کو متعین کر سکے۔ کیوں کہ قلم
کے بس کی بات نہیں کہ وہ اشہبِ زمانہ کیلئے تازیانے کا کام
کر ے۔ یہ حوصلہ شمشیر میں ہے جو شمشیر سے بھی ٹکر ائے تو بجلی کا روپ
دھارے۔ جو تدبیر و حکمت کے دروازوں کو وا کر نے کی کلید ہے۔ یہ حوصلہ مند
کیلئے ہارنے کے بعد بھی امید ہے ۔ شمشیر وقت کے دھارے کو موڑنے اور حوصلوں
کو جوڑنے کی رو داد ہو ا کر تی ہے۔
جناب صدر! تاریخ انسانی گواہ ہے جب کبھی بنی نوع انسان نے انقلاب کی تاریخ
رقم کی ہے تو اس کے کناروں کی ترتیب نوک شمشیر سے ہوئی ہے۔ دیبل کے ڈاکوؤں
کے مقابل مسلمانوں کی ایک بیٹی کسی قلمکار کو دعوت نہیں دیتی بلکہ شمشیر
کے دھنی بن قاسم کو آواز دیتی ہے۔ پھر وہ تلوار بے نیام ہو کر سندھ پر یوں
ٹوٹتا ہے کہ ڈاکوؤں کے ڈیرے کو باب الاسلام میں تبدیل کر دیتا ہے۔
میرے نبی ؐ کے فر مانوں کو پورا کر نے والے محمد بن قاسم اور طارق تلوار
جیسے سر کنڈوں کی قلمیں لیکر خون مسلمان سے سجیں ہوئی تلواریں سونت کر
میدان میں نکلتے ہیں تو تب جا کر قر طبہ کی مسجدوں کے مینار انقلاب عروج
مسلم کی گواہی دیا کرتے ہیں۔
جب ساری دنیا کے عیسائی پاپا ئے روم کے جھنڈ ے تلے ایک صلیب کو مرکز مان
کر جو ق در جوق جمع ہوتے ہیں تو مسلمانان عالم کا نشان ایک قلم نہیں صلاح
الدین کے نام سے منسوب ہو نے والی ہلالی تلوار بنا کر تی ہے۔ پھر وہ سپہ سا
لار اسی ہلال سے انقلاب کی ایسی نامیاتی سحر طلوع کر تا ہے جس میں
اندھیروں کا نام نہیں ہو تا۔
جناب صدر ! شمشیر علامت ہے طاقت کی شمشیر علامت ہے عروج کی اور انقلاب کی
سمتیں صرف اور صرف طاقت متعین کرتی ہے کیوں کہ انقلاب ایسی کیفیت ہے۔ جو
صدیوں کے بیتنے کا انتظار نہیں کرتی بلکہ لمحوں میں وقوع پذیر ہو ا کرتی
ہے۔ انقلاب کے سورج کا اجیالہ لمحوں میں روئے زمین پر پھیلتا ہے اسے وقت
اور صدیوں کے فاصلے طے
کر نے میں کوئی لمحہ درکار نہیں ہوتا ۔ جب قلم کے ذریعے انقلاب کی بات اگر
کی بھی جائے تو زندگی سالہا سال کچھوے کی رفتار سے رینگتی ہے تب کہیں کوئی
تبدیلی کے آثار معلوم ہو نے شروع ہو تے ہیں اور جب تک قلم کی بات لوگوں تک
پہنچتی ہے۔ تب تک انقلاب کا داعی زہر کا پیالہ پی چکا ہوتا ہے۔ اپنی زندگی
جی چکا ہو تا ہے۔
مجھے بتائیے وہ کون سا انقلاب تھا جو ارسطو کے قلم سے آیا وہ کون سی روشنی
تھی جس نے زمانہ بدلا اور وہ افلا طون کے افکار سے پھوٹی۔ سقراط کے زہر کے
پیالے نے سوائے اس کے اپنے نام کے کیا بچایا۔نٹشے کی تعلیمات سے کون سے
نظام کو متعین کیاہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ تبدیلیاں ہوئی مگر یہ
تبدیلیاں ایسی ہی تھیں جسے کوئی ورق سادہ پر سیاہی کے چھینٹے پھینک دے۔ مگر
شمشیر جب میدان میں اترتی ہے تو درو دیوار کے نقش بدل جاتے ہیں۔بابل و
نینوا کی تہذیبوں کے کھنڈ ر چلا چلا کر کہتے ہیں کہ یہاں کوئی انقلاب گزرا
تھا۔ چین و عرب کے صحرا ؤ ں کی وسعتوں میں تپتی ریگ پکارتی ہے یہاں انقلاب
گزرا تھا جس کو روکنے کیلئے دیواریں بنائی گئیں تھیں۔ چنگیز و ہلاکو کے
تعمیر شدہ میناروں کی ہیبتیں قسمیں اٹھاتی ہیں یہاں انقلاب نے قدم دھرے
تھے۔ کہ انقلاب جب آتا ہے تو لوگ ہی نہیں دھرتی ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔ پھر
سمندروں دریاؤں کا پانی گواہی دیتا ہے کہ ہاں اب تبدیلی آئی ہے ۔ کوہ
ہمالیہ کے مقابل لاشوں کے کوہ ہمالیہ بنتے ہیں۔ نظر یہ سے نظر یہ نہیں
تلوار سے تلوار ٹکراتی ہے تب کہیں جا کر انقلاب کی چھنا چھن سنائی دیتی ہے۔
اور قلم کے بس کی بات نہیں کہ وہ انقلاب کی سنہری زنجیر کو ہلا سکے یہ
شمشیر ہے جو انقلاب کی پہلی اور آخری تدبیر ہے۔