انقلاب قلم سے نہیں شمشیر سے جنم لیتے ہیں ‘‘
جنابِ صدر! پتھر کے سینے پر کندہ اک نقش جاوداں کیطرح یہ بات ہر دور کی
پیشانی پر مہر تصدیق بن کر ثبت رہی کہ انقلاب جنبشِ قلم کے نہیں نوک تلوار
کے دم قدم سے پھو ٹتے ہیں۔ رزمِ حق و باطل میں مثل فولاد مومن اس لوہے کو
کبھی شمشیر کے روپ میں ڈھالتا ہے تو کبھی یورش اغیار کے سامنے ڈھال کا کام
لیتا ہے۔ سرکنڈوں کی کھوکھلی پوروں سے بننے والا قلم چند ثانیوں کیلئے رو
شنائی کا قطرہ نہیں سنبھال پاتا کسی انقلا ب کا پیش خیمہ کیوں کر بن سکتا
ہے؟ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ منکرین عظمت شمشیر کے قلم بھی با لآخر کسی
شمشیر بے نام کی دھار سے تراشیدہ ہوتے ہیں۔
جنابِ صدر! یہ سمجھنا از حد ضروری ہے کہ انقلاب اور تبدیلی میں کیا فرق
ہے۔ تبدیلی مثل قطرہ نیساں کسی پتھر کی سل پر سالہا سالہا برستی ہے تب پتھر
کے سینے سے وہ گوہر آبدار بر آمد ہو تا ہے جس کا خواب دیکھنے والی آنکھیں
کب کی مر جھا چکی ہوتی ہیں۔ مگر انقلاب کی لو کسی دیئے کا اجیالہ نہیں جسے
صبا کا ایک لطیف جھونکا بجھا جائے بلکہ ایسا پر نور ستارہ ہے جسے ڈرا نہیں
سکتی شب کی تاریکی ! انقلاب وہ صبح نوید ہے جس کیلئے چشم بر اہان کے خوابوں
کی تعبیر ان کی اپنی زندگیوں ہی میں ہو جاتی ہے۔ تبدیلی یہ تھی کہ بن قاسم
کے چند ہزار سپاہیوں نے دیبل پر قدم رکھا اور سندھ باب الاسلام بن گیا۔
مگر انقلاب یہ کہ غلامی کی ایک صدی نے اتنے طوفان اٹھا ئے کہ پاکستان بن
گیا۔ تبدیلی یہ ہے کہ باغ کے کسی گوشے میں ایک پودا نیا لگا یا جائے۔
انقلاب یہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پھل اور پھول سے لدے جائے ۔ تبدیلی یہ
تھی کہ مظاہر قدرت کی پرستش کی جگہ بتوں نے لے لی۔ انقلاب یہ تھا کہ انہی
انسانوں نے اپنے تراشیدہ بھگوانوں کی گردنوں میں پھندے ڈالے۔ تبدیلی یہ
تھی اوس خزرج کی لڑائی میں پہل کی ترتیب بدلتی تھی۔ انقلاب یہ تھا کہ حرہ
کے میدانوں نے المسلم اخوالمسلم کے نعرے سنے۔ تبدیلی یہ تھی کہ لوگ اپنے
مال میں غریبوں کوحصہ دار سمجھنے لگے انقلاب یہ تھا کہ مسلمانوں کے اس حق
میں اونٹ کی نکیل کی ایک سری تک غصب کرنے والوں کے خلاف اعلان جہاد کیا
گیا۔
جناب صدر! تبدیلی جب انقلاب کا روپ دھارے تو صورت گر شمشیر ہوا کرتی ہے۔
انقلاب تو تب آتا ہے جب ابو دھانہؓ سر پر سرخ پٹیاں باندھ کر میدان جنگ میں
کود پڑیں۔ انقلاب تو تب آیا کر تا ہے جب ادھ کٹے بازو اپنے ہی پاؤں تلے
رکھ کہ تن سے جدا کر دیا جائے۔ انقلاب تو تب آیا کر تا ہے کہ جب عرب کے
میدان میں نو نو تلواریں ٹوٹ جانے کی گواہی دیتے ہیں۔ انقلاب تو تب آیا کر
تا ہے جب بھوکے پیٹ پر پتھر ہوں اور ایک ضرب سے چٹانیں ٹوٹیں۔ انقلاب تو تب
آیا کرتا ہے جب بہادری کے القابات ذوالفقار اور سیف اللہ کے ناموں سے سجا
ئے جاتے ہیں۔ انقلاب تو تب آیا کرتا ہے جب مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کی
شہادت پر سجدہ شکر ادا کرتی ہیں۔ انقلاب تو تب آتا ہے جب طارق اندلس کے
میدانوں میں یوں نعرہ فگن ہو تا ہے۔
یہ غازی یہ تیر ے پر اسرار بندے
بخشا گیا جن کو ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے
جنابِ صدر! پتھر کے سینے پر کندہ اک نقش جاوداں کیطرح یہ بات ہر دور کی
پیشانی پر مہر تصدیق بن کر ثبت رہی کہ انقلاب جنبشِ قلم کے نہیں نوک تلوار
کے دم قدم سے پھو ٹتے ہیں۔ رزمِ حق و باطل میں مثل فولاد مومن اس لوہے کو
کبھی شمشیر کے روپ میں ڈھالتا ہے تو کبھی یورش اغیار کے سامنے ڈھال کا کام
لیتا ہے۔ سرکنڈوں کی کھوکھلی پوروں سے بننے والا قلم چند ثانیوں کیلئے رو
شنائی کا قطرہ نہیں سنبھال پاتا کسی انقلا ب کا پیش خیمہ کیوں کر بن سکتا
ہے؟ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ منکرین عظمت شمشیر کے قلم بھی با لآخر کسی
شمشیر بے نام کی دھار سے تراشیدہ ہوتے ہیں۔
جنابِ صدر! یہ سمجھنا از حد ضروری ہے کہ انقلاب اور تبدیلی میں کیا فرق
ہے۔ تبدیلی مثل قطرہ نیساں کسی پتھر کی سل پر سالہا سالہا برستی ہے تب پتھر
کے سینے سے وہ گوہر آبدار بر آمد ہو تا ہے جس کا خواب دیکھنے والی آنکھیں
کب کی مر جھا چکی ہوتی ہیں۔ مگر انقلاب کی لو کسی دیئے کا اجیالہ نہیں جسے
صبا کا ایک لطیف جھونکا بجھا جائے بلکہ ایسا پر نور ستارہ ہے جسے ڈرا نہیں
سکتی شب کی تاریکی ! انقلاب وہ صبح نوید ہے جس کیلئے چشم بر اہان کے خوابوں
کی تعبیر ان کی اپنی زندگیوں ہی میں ہو جاتی ہے۔ تبدیلی یہ تھی کہ بن قاسم
کے چند ہزار سپاہیوں نے دیبل پر قدم رکھا اور سندھ باب الاسلام بن گیا۔
مگر انقلاب یہ کہ غلامی کی ایک صدی نے اتنے طوفان اٹھا ئے کہ پاکستان بن
گیا۔ تبدیلی یہ ہے کہ باغ کے کسی گوشے میں ایک پودا نیا لگا یا جائے۔
انقلاب یہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پھل اور پھول سے لدے جائے ۔ تبدیلی یہ
تھی کہ مظاہر قدرت کی پرستش کی جگہ بتوں نے لے لی۔ انقلاب یہ تھا کہ انہی
انسانوں نے اپنے تراشیدہ بھگوانوں کی گردنوں میں پھندے ڈالے۔ تبدیلی یہ
تھی اوس خزرج کی لڑائی میں پہل کی ترتیب بدلتی تھی۔ انقلاب یہ تھا کہ حرہ
کے میدانوں نے المسلم اخوالمسلم کے نعرے سنے۔ تبدیلی یہ تھی کہ لوگ اپنے
مال میں غریبوں کوحصہ دار سمجھنے لگے انقلاب یہ تھا کہ مسلمانوں کے اس حق
میں اونٹ کی نکیل کی ایک سری تک غصب کرنے والوں کے خلاف اعلان جہاد کیا
گیا۔
جناب صدر! تبدیلی جب انقلاب کا روپ دھارے تو صورت گر شمشیر ہوا کرتی ہے۔
انقلاب تو تب آتا ہے جب ابو دھانہؓ سر پر سرخ پٹیاں باندھ کر میدان جنگ میں
کود پڑیں۔ انقلاب تو تب آیا کر تا ہے جب ادھ کٹے بازو اپنے ہی پاؤں تلے
رکھ کہ تن سے جدا کر دیا جائے۔ انقلاب تو تب آیا کر تا ہے کہ جب عرب کے
میدان میں نو نو تلواریں ٹوٹ جانے کی گواہی دیتے ہیں۔ انقلاب تو تب آیا کر
تا ہے جب بھوکے پیٹ پر پتھر ہوں اور ایک ضرب سے چٹانیں ٹوٹیں۔ انقلاب تو تب
آیا کرتا ہے جب بہادری کے القابات ذوالفقار اور سیف اللہ کے ناموں سے سجا
ئے جاتے ہیں۔ انقلاب تو تب آیا کرتا ہے جب مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کی
شہادت پر سجدہ شکر ادا کرتی ہیں۔ انقلاب تو تب آتا ہے جب طارق اندلس کے
میدانوں میں یوں نعرہ فگن ہو تا ہے۔
یہ غازی یہ تیر ے پر اسرار بندے
بخشا گیا جن کو ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے