جغرافیائی سرحدیں تاریخی سرحدوں سے زیادہ اہم ہیں (مخالفت)
جغرافیہ خونِ انسانی سے کھینچی وہ لکیر ہے، جو دلوں میں تقسیم کی دراڑیں
ڈالتی ہے۔ جغرافیہ کبھی کسی دیوار برلن کو جنم دیتا ہے اور کبھی خوف دشمناں
سے کسی دیوارِ چین کو بنانے کی سعی کر تا ہے۔ جہاں کہیں اتنی فراغت نہیں
ملتی وہاں لوہے کی خار دار تاروں کے آرپار اپنے اپنے مطلب کے جھنڈے گاڑ لئے
جا تے ہیں۔
تاریخ ’’و اعتصمو بحبل اللہ جمیعاً ولا تفر قُوا‘‘ کے بادلوں سے نکلا چاند
ہے ،جو مکہ کے مہا جرین کو انصارِ مدینہ کو سگا بھا ئی بنا تا ہے، جو
قبیلوں کے ازلی تعصب کو سمیٹ کر سبھی مسلمانوں کو ’’المسلم ا خو المسلم‘‘
کی لڑی میں پرو تا ہے۔ پھر خدا گواہ ہے کہ نیل کے ساحل سے تا بخاکِ کاشغر
وہ صرف ’’اللہ اکبر ‘‘ کی صدا پر سر جھکا تے ہیں۔ جغرافیہ شخصی خیالات سے
متاثرہ سوچ ہے جو افراد کو اس طرح مقید کرتی ہے کہ وہ کسی آزاد ملک میں رہ
کر بھی غیر کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ اورتاریخ وہ جذبہءِ صادق ہے
جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بلا ل حبشیؓ کے منہ میں احد احد بن کر
چلاتا ہے۔جغرافیہ ایک جنون ہے جو تسلط اور بد امنی کے تا ثرات جنم دیتا ہے۔
تاریخ ایک حوصلہ ہے جو محکوم لوگوں میں اتنی سکت پیدا کر تاہے کہ وہ سؤر
کی چربی میں ڈھلے کارتوس چلانے سے انکار کر دیں۔جغرافیہ وہ دنیاوی جاہ و
حشم ہے جس کیلئے کھو پڑیوں کے مینار بھی بنتے ہیں اور نا گا ساکی اور ہیرو
شیما کی تاریخیں بھی رقم ہوتی ہیں اور تاریخ وہ اخروی زندگی ہے جو زندہ ہو
تو غازی اور مر جائے تو شہید کا ابدی فلسفہ پیش کر تی ہے۔غرضیکہ جغرافیہ کے
جسم میں تاریخ دل بن کے دھڑکتی ہے۔ اس دل کی ہر ایک دھڑکن سے جغرافیہ کی
دیوار یں متز لزل رہتی ہیں۔ تاریخ جغرافیہ کو جنم دیتی ہے۔ لیکن جغرافیہ
تاریخ کو سنبھالنے کا متحمل نہیں ۔
جب کبھی میں دیکھتا ہو ں کہ میرا طارق بن زیاد جبرا لٹر کے ساحلوں پرہر ملک
کہ ملک ما است کہ ملک خدا ئے ما است کا نعرہ بلند کر تا ہے تو میرا دل
کہتا ہے کہ جغرافیائی سر حدیں مٹی کی دیواروں کے سوا کچھ بھی نہیں جب کبھی
میرا مسلمان بھائی چھری کی زد میں کٹتا ہے تو اس کے لبوں پر جغرافیہ نہیں
تاریخ ہوتی ہے۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔جب کبھی میرا مجاہد ٹینکوں کی
باڑ کے آگے اپنے جسم سے بم باندھ کر لیٹ جائے تو مقصد بقائے تاریخ اسلام
ہوا کرتا ہے۔جب کبھی میرے دیوانے ایماں کی حرارت والے، شب بھر میں مندر کی
بجائے مسجد تعمیر کر دیں تو ان کی رگوں میں جغرافیہءِ مسجد نہیں، سر
بلندی ءِ دین کا لہو رقص کر تا ہے۔جب ما ئیں اپنے بیٹوں کو اپنے ہاتھوں سے
جنگوں میں شہید ہو نے کیلئے بھیج دیں ،تو لہو کا ہر ذرہ عشق رسولؐ کی راہ
میں بہتا ہے۔جب معوذؓ اپنے بازو کو خود کاٹ کر میدان جنگ میں پھینک دیں ۔
جب ابودجانہؓ سر پر سرخ پٹی باندھ لیں ،اور میرے نبی مکرمؐ اسے تلوار سو نپ
دیں، جب سعد بن ابی وقاصؓ تلوار چلائیں تو حضورؐ کہیں تلوار چلاؤ میرے
ماں باپ تم پرقر بان ،جب آپؐ علیؓ سے کہیں کہ علیؓ یہ مرحب ہے تو علیؓ
کہیں میں جانتا ہوں جب خالد بن ولیدؓ غم محرومیءِِ شہادت میں بسترِ مرگ پر
رو پڑیں۔جب میرا معصبؓ بن عمیر، اپنے کٹے بازوؤں سے علمِ مسلمانا ں اپنے
سینے سے لگا تا ہے، جب کوئی مومن نقش توحیدکا ہر دل پہ بٹھا تا ہے۔زیرِ
خنجر بھی یہی پیغام سنا تا ہے، تو اس کو مطمعِ نظر زمین کا ٹکڑا نہیں ہوتا،
سر بلندی ءِ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو ا کر تی ہے۔
جنابِ صدر! سب سے پہلے میں واضح کرتا جاؤں کہ جغرافیائی سر حدیں وہ حدیں
جنہوں نے زمانہ ءِ قدیم میں دجلہ، فرات، نیل اور در یائے سندھ کی تہذیبوں
کو جنم دیاتھا۔ بعد میں یہ سر حدیں کبھی ڈریورنڈ لائن کہلائیں، کبھی واہگہ
بارڈر کے نام سے مشہور ہوئیں۔مگر تاریخی سرحدیں اس سے قطعی مختلف ہیں۔ یہ
وہ سرحدیں ہیں جو کفر کو ’’امتِ واحدہ ‘‘ قرار دیتی ہیں۔ جو دنیا کے سبھی
مسلمانوں کو ’’لا ا لہ الا للہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی بنیاد پر اکٹھا کرتی
ہیں۔ جو کہتی ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندو ستاں کا ہر پیر و جواں
بے تاب ہو جائے۔ جو ’’ان الدین عند اللہ السلام‘‘ کی بنیاد پر اہلیانِ کفر
اور اہلیانِ اسلام کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔ جو اخوتِ مسلماناں کو وہ
تقویت دیتی ہیں کہ 313بدر کے میدان میں ہزاروں پر پل پڑتے ہیں۔
جغرافیائی بر تری کا نعرہ لگانے والوں کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ
تمہاری جغرافیائی دنیا کا مضبوط ترین بادشاہ، جب کبھی کسی صدام سے ٹکرایا
ہے تو اس نے کہا کہ پھر صلیبی جنگوں کا آغاز ہو گیا۔اگر آج تمہاری
جغرافیائی سرحدیں اہم ہوتیں تو کوئی بر طانوی فوجی تمہارے صلا ح الدین کی
قبر پر ٹھو کر مار کر نہ کہتا کہ اٹھو! صلاح الدین ہم آگئے ہیں۔ اگر
جغرافیائی سرحدیں اہم ہوتیں تو بابر ی مسجد کے میناروں پر بھنگڑے ڈالنے کون
جاتا۔
جنابِ صدر!
تاریخی حدود جغرافیائی حدود سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ کیونکہ جغرافیائی
حدود کی خلاف ورزی کرنے والے 269بھارتی مچھیروں کو تو خیر سگالی کے جذبے
کے تحت چھوڑا جا سکتا ہے۔ مگر مجھے میرے غازی علم دین کی قسم! جب کوئی
ہماری تاریخ کی توہین کر تا ہے تو ہم اسے نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں۔کہ میرا
حسین ابنِ علیؓ اسی بات کو ثابت کر نے کے لئے کر بلا میں 72اصحاب کی قر
بانی دیا کر تا ہے۔
کیونکہ جب NO MUHAMMAD, NO MAKKA کے سانچوں کو ڈھال کر، کوک کی بوتلوں پر
سجا یا جاتا ہے۔ اور جب تمھارے ہی کلمے کی تمھارے جوتوں کے تلو ؤں پر
کھدائی کی جا تی ہے۔ تو نا موس محمدؐ کی قسم وہ تمھارے کسی جغرافیے کو نہیں
بلکہ تمھاری تاریخ کو مسخ کر نے کی کوشش کر تے ہیں۔ ارے یہ جغرافیائی بر
تری کا نعرہ تو اہلِ مغرب کی سازش ہے کہ خود تو Pepsiنامی مشروبات سے
کروڑوں کما کر یہودیت کی بنیادیں مضبوط کر تے ہیں اور تمھیں سب سے پہلے
پاکستان کا گمراہ کن نعرہ دیتے ہیں۔ اور خدا گواہ ہے کہ جب اقتدار کو بر
قرار رکھنے کے لئے ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے، جیسے تاریخی
فلسفے کو’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی صداؤں میں ڈبو دیا گیا تو بادشاہی مسجد
کے پہلو سے مجھے اس عظیم مفکر کی صدا سنائی دی کہ
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
جغرافیہ خونِ انسانی سے کھینچی وہ لکیر ہے، جو دلوں میں تقسیم کی دراڑیں
ڈالتی ہے۔ جغرافیہ کبھی کسی دیوار برلن کو جنم دیتا ہے اور کبھی خوف دشمناں
سے کسی دیوارِ چین کو بنانے کی سعی کر تا ہے۔ جہاں کہیں اتنی فراغت نہیں
ملتی وہاں لوہے کی خار دار تاروں کے آرپار اپنے اپنے مطلب کے جھنڈے گاڑ لئے
جا تے ہیں۔
تاریخ ’’و اعتصمو بحبل اللہ جمیعاً ولا تفر قُوا‘‘ کے بادلوں سے نکلا چاند
ہے ،جو مکہ کے مہا جرین کو انصارِ مدینہ کو سگا بھا ئی بنا تا ہے، جو
قبیلوں کے ازلی تعصب کو سمیٹ کر سبھی مسلمانوں کو ’’المسلم ا خو المسلم‘‘
کی لڑی میں پرو تا ہے۔ پھر خدا گواہ ہے کہ نیل کے ساحل سے تا بخاکِ کاشغر
وہ صرف ’’اللہ اکبر ‘‘ کی صدا پر سر جھکا تے ہیں۔ جغرافیہ شخصی خیالات سے
متاثرہ سوچ ہے جو افراد کو اس طرح مقید کرتی ہے کہ وہ کسی آزاد ملک میں رہ
کر بھی غیر کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ اورتاریخ وہ جذبہءِ صادق ہے
جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بلا ل حبشیؓ کے منہ میں احد احد بن کر
چلاتا ہے۔جغرافیہ ایک جنون ہے جو تسلط اور بد امنی کے تا ثرات جنم دیتا ہے۔
تاریخ ایک حوصلہ ہے جو محکوم لوگوں میں اتنی سکت پیدا کر تاہے کہ وہ سؤر
کی چربی میں ڈھلے کارتوس چلانے سے انکار کر دیں۔جغرافیہ وہ دنیاوی جاہ و
حشم ہے جس کیلئے کھو پڑیوں کے مینار بھی بنتے ہیں اور نا گا ساکی اور ہیرو
شیما کی تاریخیں بھی رقم ہوتی ہیں اور تاریخ وہ اخروی زندگی ہے جو زندہ ہو
تو غازی اور مر جائے تو شہید کا ابدی فلسفہ پیش کر تی ہے۔غرضیکہ جغرافیہ کے
جسم میں تاریخ دل بن کے دھڑکتی ہے۔ اس دل کی ہر ایک دھڑکن سے جغرافیہ کی
دیوار یں متز لزل رہتی ہیں۔ تاریخ جغرافیہ کو جنم دیتی ہے۔ لیکن جغرافیہ
تاریخ کو سنبھالنے کا متحمل نہیں ۔
جب کبھی میں دیکھتا ہو ں کہ میرا طارق بن زیاد جبرا لٹر کے ساحلوں پرہر ملک
کہ ملک ما است کہ ملک خدا ئے ما است کا نعرہ بلند کر تا ہے تو میرا دل
کہتا ہے کہ جغرافیائی سر حدیں مٹی کی دیواروں کے سوا کچھ بھی نہیں جب کبھی
میرا مسلمان بھائی چھری کی زد میں کٹتا ہے تو اس کے لبوں پر جغرافیہ نہیں
تاریخ ہوتی ہے۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔جب کبھی میرا مجاہد ٹینکوں کی
باڑ کے آگے اپنے جسم سے بم باندھ کر لیٹ جائے تو مقصد بقائے تاریخ اسلام
ہوا کرتا ہے۔جب کبھی میرے دیوانے ایماں کی حرارت والے، شب بھر میں مندر کی
بجائے مسجد تعمیر کر دیں تو ان کی رگوں میں جغرافیہءِ مسجد نہیں، سر
بلندی ءِ دین کا لہو رقص کر تا ہے۔جب ما ئیں اپنے بیٹوں کو اپنے ہاتھوں سے
جنگوں میں شہید ہو نے کیلئے بھیج دیں ،تو لہو کا ہر ذرہ عشق رسولؐ کی راہ
میں بہتا ہے۔جب معوذؓ اپنے بازو کو خود کاٹ کر میدان جنگ میں پھینک دیں ۔
جب ابودجانہؓ سر پر سرخ پٹی باندھ لیں ،اور میرے نبی مکرمؐ اسے تلوار سو نپ
دیں، جب سعد بن ابی وقاصؓ تلوار چلائیں تو حضورؐ کہیں تلوار چلاؤ میرے
ماں باپ تم پرقر بان ،جب آپؐ علیؓ سے کہیں کہ علیؓ یہ مرحب ہے تو علیؓ
کہیں میں جانتا ہوں جب خالد بن ولیدؓ غم محرومیءِِ شہادت میں بسترِ مرگ پر
رو پڑیں۔جب میرا معصبؓ بن عمیر، اپنے کٹے بازوؤں سے علمِ مسلمانا ں اپنے
سینے سے لگا تا ہے، جب کوئی مومن نقش توحیدکا ہر دل پہ بٹھا تا ہے۔زیرِ
خنجر بھی یہی پیغام سنا تا ہے، تو اس کو مطمعِ نظر زمین کا ٹکڑا نہیں ہوتا،
سر بلندی ءِ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو ا کر تی ہے۔
جنابِ صدر! سب سے پہلے میں واضح کرتا جاؤں کہ جغرافیائی سر حدیں وہ حدیں
جنہوں نے زمانہ ءِ قدیم میں دجلہ، فرات، نیل اور در یائے سندھ کی تہذیبوں
کو جنم دیاتھا۔ بعد میں یہ سر حدیں کبھی ڈریورنڈ لائن کہلائیں، کبھی واہگہ
بارڈر کے نام سے مشہور ہوئیں۔مگر تاریخی سرحدیں اس سے قطعی مختلف ہیں۔ یہ
وہ سرحدیں ہیں جو کفر کو ’’امتِ واحدہ ‘‘ قرار دیتی ہیں۔ جو دنیا کے سبھی
مسلمانوں کو ’’لا ا لہ الا للہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی بنیاد پر اکٹھا کرتی
ہیں۔ جو کہتی ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندو ستاں کا ہر پیر و جواں
بے تاب ہو جائے۔ جو ’’ان الدین عند اللہ السلام‘‘ کی بنیاد پر اہلیانِ کفر
اور اہلیانِ اسلام کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔ جو اخوتِ مسلماناں کو وہ
تقویت دیتی ہیں کہ 313بدر کے میدان میں ہزاروں پر پل پڑتے ہیں۔
جغرافیائی بر تری کا نعرہ لگانے والوں کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ
تمہاری جغرافیائی دنیا کا مضبوط ترین بادشاہ، جب کبھی کسی صدام سے ٹکرایا
ہے تو اس نے کہا کہ پھر صلیبی جنگوں کا آغاز ہو گیا۔اگر آج تمہاری
جغرافیائی سرحدیں اہم ہوتیں تو کوئی بر طانوی فوجی تمہارے صلا ح الدین کی
قبر پر ٹھو کر مار کر نہ کہتا کہ اٹھو! صلاح الدین ہم آگئے ہیں۔ اگر
جغرافیائی سرحدیں اہم ہوتیں تو بابر ی مسجد کے میناروں پر بھنگڑے ڈالنے کون
جاتا۔
جنابِ صدر!
تاریخی حدود جغرافیائی حدود سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ کیونکہ جغرافیائی
حدود کی خلاف ورزی کرنے والے 269بھارتی مچھیروں کو تو خیر سگالی کے جذبے
کے تحت چھوڑا جا سکتا ہے۔ مگر مجھے میرے غازی علم دین کی قسم! جب کوئی
ہماری تاریخ کی توہین کر تا ہے تو ہم اسے نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں۔کہ میرا
حسین ابنِ علیؓ اسی بات کو ثابت کر نے کے لئے کر بلا میں 72اصحاب کی قر
بانی دیا کر تا ہے۔
کیونکہ جب NO MUHAMMAD, NO MAKKA کے سانچوں کو ڈھال کر، کوک کی بوتلوں پر
سجا یا جاتا ہے۔ اور جب تمھارے ہی کلمے کی تمھارے جوتوں کے تلو ؤں پر
کھدائی کی جا تی ہے۔ تو نا موس محمدؐ کی قسم وہ تمھارے کسی جغرافیے کو نہیں
بلکہ تمھاری تاریخ کو مسخ کر نے کی کوشش کر تے ہیں۔ ارے یہ جغرافیائی بر
تری کا نعرہ تو اہلِ مغرب کی سازش ہے کہ خود تو Pepsiنامی مشروبات سے
کروڑوں کما کر یہودیت کی بنیادیں مضبوط کر تے ہیں اور تمھیں سب سے پہلے
پاکستان کا گمراہ کن نعرہ دیتے ہیں۔ اور خدا گواہ ہے کہ جب اقتدار کو بر
قرار رکھنے کے لئے ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے، جیسے تاریخی
فلسفے کو’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی صداؤں میں ڈبو دیا گیا تو بادشاہی مسجد
کے پہلو سے مجھے اس عظیم مفکر کی صدا سنائی دی کہ
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے