روشن خیال اعتدال پسندی بقا کی ضامن ہے
جنابِ صدر! روشن خیال اعتدال پسندی کے لفظی و معنوی فلسفے سے اختلاف کی
راہیں مسدود ہیں مگر اعتدال پسندی کے اس پر دے پیچھے اگر نیکر وں والی نیم
برہنہ تہذیب ستر پوشی میں ’’اعتدال‘‘ تلاش کر نے لگے تو مجھے اختلاف ہے یہ
ایسی اعتدال پسندی ہے جو بپتسمہ ہوتے ہر بچے کو سبق دیتی ہے کہ تمہارے
گناہوں کے کفارے میں عیسیٰ سولی پر جھول چکے۔
یہ ایسی اعتدال پسندی ہے جو ننگے بدنوں کو دیکھ کر آنکھیں ڈھانپ لینے کا حکم دیتی ہے۔
یہ ایسی اعتدال پسندی ہے جو نئے سلیبس کی آڑ میں فاروق اعظمؓ کو موسیقی کا رسیا تک گر دانتے ہوئے گریز نہیں کرتی۔
یہ ایسی اعتدال پسندی کا ایسا روشن خیال و رژن ہے جو نو عمر طلبا سے چپکے
چپکے سوال کر تا ہے! ارے شراب کیوں پیتے ہو! تمہاری گرل فرینڈ کو دیکھ کر
تمہارے دوست کیا سوچتے ہیں یہ ایسی اعتدال پسندی ہے جو ریما و میرا کو ملکی
سفیر کے خطاب دلواتی ہے اور ’’نظر نظر‘‘ میں وہ بد نظری پھیلاتی ہے ہیرالڈ
کے مغربی جریدے کہتے ہیں کہ پاکستان نے نئے سلیبس کو سمجھ لیا ہے۔
جنابِ صدر! آج ہماری قوم اس بد ترین منافقت کا شکار ہے کہ الامان! ہم
مسلمانی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر لا الہ کی تا ثیر سے ہمارے قلب نا آشنا ہیں۔ہم سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہتے ہوئے گبھر اتے ہیں۔ یہ کیسی روشن
خیالی ہے جو انعام کی ایک سند کیلئے جھوٹ بولنے پر مجبور کرتی ہے ۔ یہ
کیسی روشن خیالی ہے جو ترقی کے فقرات کیلئے سرکاری بزم خوانیوں پر مجبور
کرتی ہے۔ یہ کیسی روشن خیالی ہے جو سٹوڈنٹ کنونشن کے پردوں میں تاریکی
پھیلاتی ہے۔ یہ کسی روشن خیالی ہے جو غیر اسلامی شعائر کے سامنے گردنیں
جھکانے پر مجبو کرتی ہے۔
جنا ب صدر! لغت کے لفظوں پر تو کسی کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا ۔ ’’ روشن
خیالی‘‘ کا روشن لفظ جب کتاب سے نکل کر میدان عمل میں پہنچتا ہے تو وہ
اندھیرا پھیلاتا ہے کہ مشرقی تہذیب کی آنکھیں اندھی ہو نے لگتی ہیں
جنابِ صدر! جب اکبر اعظم نے ہندوؤں کو دل آزاری سے بچانے کیلئے روشن خیالی
کا دیپ جلایا تھا تو اس نے سنت رسولؐ کے چراغ بجھا نے کی کاوشیں کی تھیں۔
یہی روشن خیالی کے دیئے جب جمال الدین افغانی نے جلائے تو مولانا مودودی کا
قلم اس پر
اختلافا ت کے انگارے بر ساتا ہے۔
’’یہ روشن خیالی‘‘ کا سورج جب سے کسی جرنیل کی وردی سے طلوع ہوا ہے۔ توہر
کس و ناکس اپنی کھوپڑی بوٹو ں تلے کچلے جا نے کے ڈر سے مدح سرا ہے۔
ہماری منافقت کی انتہا ہے کہ کوئی ہمارے سر زمین کو کتوں سے مشا بوں قرار
دے دے تو ہم کہتے ہیں کہ لوگ ہمیں وفا دار گر دانتے ہیں یہ کیسی روشن خیالی
ہے امریکی جرنیل اخباروں میں بھونکتے پھر تے ہیں کہ پاکستانی چند ڈالروں
کے بدلے اپنی ماں تک بیچ رہے ہیں!
جناب صدر!
نہیں چاہیے ہمیں وہ روشن خیالی جو میری تہذیب کی آنکھیں نوچ لے۔نہیں چاہیے
ہمیں وہ روشن خیالی جو سنگینوں کے زور پر نافذ کی جائے۔نہیں چاہیے ہمیں وہ
روشن خیالی جو گر جا گھروں میں مورتیوں کی امانت کو جائز قرار دیتی
ہے۔نہیں چاہیے ہمیں وہ روشن خیالی جو اسلامی معاشرے میں نیکر پہننے والوں
پر تنقید کر نے والوں کوآنکھیں بند کر لینے کا درس دیتی ہے۔نہیں چاہیے ہمیں
وہ روشن خیالی جو مخلوط میراتھنوں کا اہتمام کر تی ہے۔نہیں چاہیے ہمیں وہ
روشن خیالی جو ہندوؤں کی مذہبی رسوم کو ہماری ثقا فت قرار دیتی ہے۔نہیں
چاہیے ہمیں وہ روشن خیالی جو مغربی طاقتوں کے اشاروں پر اپنے بھائیوں پر
گولی چلانے پر مجبور کرتی ہے۔نہیں چاہیے وہ روشن خیالی جو گوانتا موبے کے
جزیروں پر قرآن شہید ہونے کے بعد بھی چاپلوسی کی چادر اوڑھ لیتی ہے ۔ نہیں
چاہیے وہ روشن خیالی جوماتھوں پر ٹیکے لگواتی ہے۔نہیں چاہیے وہ روشن خیالی جو بسنت کی راتیں مناتی
ہے۔نہیں چاہیے وہ روشن خیالی جو چادروں کو دوپٹہ کرتی ہے۔نہیں چاہیے وہ
روشن خیالی جو پردے کو بے پردہ کرتی ہے۔
جنابِ صدر! یہ روشن خیال اعتدال پسندی جسے ہم ترقی کا اسم اعظم سمجھ رہے
ہیں ۔ ہمارے اپنے ہی ذہنوں پر کالا جادو کر رہا ہے۔ قومیں اپنی اقدار اور
تہذیب کے بل پر چلتی ہیں۔ تھالی کے بینگن اور لڑھکتے ہو ئے پتھر کبھی میدان
جنگ کے
گھوڑے نہیں بنتے۔
جنابِ صدر! روشن خیال اعتدال پسندی کے لفظی و معنوی فلسفے سے اختلاف کی
راہیں مسدود ہیں مگر اعتدال پسندی کے اس پر دے پیچھے اگر نیکر وں والی نیم
برہنہ تہذیب ستر پوشی میں ’’اعتدال‘‘ تلاش کر نے لگے تو مجھے اختلاف ہے یہ
ایسی اعتدال پسندی ہے جو بپتسمہ ہوتے ہر بچے کو سبق دیتی ہے کہ تمہارے
گناہوں کے کفارے میں عیسیٰ سولی پر جھول چکے۔
یہ ایسی اعتدال پسندی ہے جو ننگے بدنوں کو دیکھ کر آنکھیں ڈھانپ لینے کا حکم دیتی ہے۔
یہ ایسی اعتدال پسندی ہے جو نئے سلیبس کی آڑ میں فاروق اعظمؓ کو موسیقی کا رسیا تک گر دانتے ہوئے گریز نہیں کرتی۔
یہ ایسی اعتدال پسندی کا ایسا روشن خیال و رژن ہے جو نو عمر طلبا سے چپکے
چپکے سوال کر تا ہے! ارے شراب کیوں پیتے ہو! تمہاری گرل فرینڈ کو دیکھ کر
تمہارے دوست کیا سوچتے ہیں یہ ایسی اعتدال پسندی ہے جو ریما و میرا کو ملکی
سفیر کے خطاب دلواتی ہے اور ’’نظر نظر‘‘ میں وہ بد نظری پھیلاتی ہے ہیرالڈ
کے مغربی جریدے کہتے ہیں کہ پاکستان نے نئے سلیبس کو سمجھ لیا ہے۔
جنابِ صدر! آج ہماری قوم اس بد ترین منافقت کا شکار ہے کہ الامان! ہم
مسلمانی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر لا الہ کی تا ثیر سے ہمارے قلب نا آشنا ہیں۔ہم سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہتے ہوئے گبھر اتے ہیں۔ یہ کیسی روشن
خیالی ہے جو انعام کی ایک سند کیلئے جھوٹ بولنے پر مجبور کرتی ہے ۔ یہ
کیسی روشن خیالی ہے جو ترقی کے فقرات کیلئے سرکاری بزم خوانیوں پر مجبور
کرتی ہے۔ یہ کیسی روشن خیالی ہے جو سٹوڈنٹ کنونشن کے پردوں میں تاریکی
پھیلاتی ہے۔ یہ کسی روشن خیالی ہے جو غیر اسلامی شعائر کے سامنے گردنیں
جھکانے پر مجبو کرتی ہے۔
جنا ب صدر! لغت کے لفظوں پر تو کسی کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا ۔ ’’ روشن
خیالی‘‘ کا روشن لفظ جب کتاب سے نکل کر میدان عمل میں پہنچتا ہے تو وہ
اندھیرا پھیلاتا ہے کہ مشرقی تہذیب کی آنکھیں اندھی ہو نے لگتی ہیں
جنابِ صدر! جب اکبر اعظم نے ہندوؤں کو دل آزاری سے بچانے کیلئے روشن خیالی
کا دیپ جلایا تھا تو اس نے سنت رسولؐ کے چراغ بجھا نے کی کاوشیں کی تھیں۔
یہی روشن خیالی کے دیئے جب جمال الدین افغانی نے جلائے تو مولانا مودودی کا
قلم اس پر
اختلافا ت کے انگارے بر ساتا ہے۔
’’یہ روشن خیالی‘‘ کا سورج جب سے کسی جرنیل کی وردی سے طلوع ہوا ہے۔ توہر
کس و ناکس اپنی کھوپڑی بوٹو ں تلے کچلے جا نے کے ڈر سے مدح سرا ہے۔
ہماری منافقت کی انتہا ہے کہ کوئی ہمارے سر زمین کو کتوں سے مشا بوں قرار
دے دے تو ہم کہتے ہیں کہ لوگ ہمیں وفا دار گر دانتے ہیں یہ کیسی روشن خیالی
ہے امریکی جرنیل اخباروں میں بھونکتے پھر تے ہیں کہ پاکستانی چند ڈالروں
کے بدلے اپنی ماں تک بیچ رہے ہیں!
جناب صدر!
نہیں چاہیے ہمیں وہ روشن خیالی جو میری تہذیب کی آنکھیں نوچ لے۔نہیں چاہیے
ہمیں وہ روشن خیالی جو سنگینوں کے زور پر نافذ کی جائے۔نہیں چاہیے ہمیں وہ
روشن خیالی جو گر جا گھروں میں مورتیوں کی امانت کو جائز قرار دیتی
ہے۔نہیں چاہیے ہمیں وہ روشن خیالی جو اسلامی معاشرے میں نیکر پہننے والوں
پر تنقید کر نے والوں کوآنکھیں بند کر لینے کا درس دیتی ہے۔نہیں چاہیے ہمیں
وہ روشن خیالی جو مخلوط میراتھنوں کا اہتمام کر تی ہے۔نہیں چاہیے ہمیں وہ
روشن خیالی جو ہندوؤں کی مذہبی رسوم کو ہماری ثقا فت قرار دیتی ہے۔نہیں
چاہیے ہمیں وہ روشن خیالی جو مغربی طاقتوں کے اشاروں پر اپنے بھائیوں پر
گولی چلانے پر مجبور کرتی ہے۔نہیں چاہیے وہ روشن خیالی جو گوانتا موبے کے
جزیروں پر قرآن شہید ہونے کے بعد بھی چاپلوسی کی چادر اوڑھ لیتی ہے ۔ نہیں
چاہیے وہ روشن خیالی جوماتھوں پر ٹیکے لگواتی ہے۔نہیں چاہیے وہ روشن خیالی جو بسنت کی راتیں مناتی
ہے۔نہیں چاہیے وہ روشن خیالی جو چادروں کو دوپٹہ کرتی ہے۔نہیں چاہیے وہ
روشن خیالی جو پردے کو بے پردہ کرتی ہے۔
جنابِ صدر! یہ روشن خیال اعتدال پسندی جسے ہم ترقی کا اسم اعظم سمجھ رہے
ہیں ۔ ہمارے اپنے ہی ذہنوں پر کالا جادو کر رہا ہے۔ قومیں اپنی اقدار اور
تہذیب کے بل پر چلتی ہیں۔ تھالی کے بینگن اور لڑھکتے ہو ئے پتھر کبھی میدان
جنگ کے
گھوڑے نہیں بنتے۔