روشن خیال اعتدال پسندی
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا ، گیا دور گراں خوابی
جی ہاں جنابِ صدر! روشن خیال اعتدال پسندی اعتدال پسندی کی ایسی روش ہے جس
پر چل کر ہم ملک و قوم کی قسمت سنوار سکتے ہیں۔ ’’خیر الامور او سطھا‘‘ کی
وادی سے نکلا یہ آفتاب عالم تاب جسے مسلمانوں کی مردہ رگوں سے تعصب کا زہر
نکال کر اخوت کا لہو بھرنا ہے ابھی عالم خیال سے نکل کر عالم عمل میں جلوہ
افروز نہیں ہوا کہ حاسدوں کی آنکھیں اس نور سے چند ھیا ئی جاتی ہیں۔ وہ
ابھی سے پکارے جاتے ہیں اس روشنی اس چراغ کو گل کر دو جو ہماری براہمی کے
رستے میں دیوار بن جائے۔ اس شمع کا فور کو مٹا دو جس کو تھام کر لوگ ان کی
چوکٹھوں پر سجدے کرنے سے کترانے لگیں۔ خداے لم یزل کی قسم! ہمیں اسلام کی
نشاط ثانیہ کیلئے اجتہاد و قیاس کی سنت کو زندہ کر نا ہو گا۔ ہمیں پھر سے
وہ بھولا ہو ا سبق دھرانا ہوگا۔ ہمیں پھر سے خیرات کے کشکولی زیور اتار نا
ہوں گے۔ اپنی آنکھوں کی گندی گدلی پتلیوں کو دھو کر نئے زمانے ، نئی صبح و
شام کا مطالعہ کر نا ہوگا۔ لباس کہنہ کو ترک کرکے پھر وہی فقیری چولہ
پہننا ہوگا جہاں علم موسیٰ حیرت فروش ہو ا کر تا ہے جہاں
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الہی
اور جنابِ والا روشن خیال اعتدال پسندی ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو ہماری کھوئی ہوئی میراث کو بحال کر ے گا کیوں کہ
کتاب ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جناب صدر!کچھ لوگ امت مسلمہ پر تہذیبی یلغار کے پس منظر میں ہونے والی
ہولیوں کواعتدال پسندی کا سر چشمہ قرار دے رہے ہیں وہ ہندی فلموں کے عروج سے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ مسلمان کے ماتھے کا محراب اب ہندوؤں کے ماتھے کی
تلک سے بدل جائیگا وہ دلیل دیتے ہیں کہ ’’نظر نظر‘‘ کی ساری الجھنیں اعتدال
پسندی کی پیدا کر دہ ہیں۔
جناب صدر! میں ان لوگوں پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اعتدال پسندی تو یہ
ہے کوئی مسلمان بھی کسی یہودی عورت کے گہنے چرائے تو دربار نبویؐ میں سزا
وار ٹھہر تا ہے۔
اعتدال پسندی تو یہ ہے سار ا شہر فتح کرلینے کے بعد بھی عام معافی کا
اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ فتح کے نشے میں دشمنوں کو
گھوڑوں کے ٹاپوں تلے نہیں روندا جاتا۔ اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ مفتوح
علاقے کی کھیتیاں نہیں اجاڑی جاتیں اعتدال پسند ی تو ہے کہ دشمن تلوار کی
نوک پرہو اور تھوک دے تو اسے ’’ذاتی بدلہ‘‘ نہ لینے کی صدا دے کر قتل نہیں
کیا جاتا اعتدال پسندی تو ہے ساری اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیئے جاتے ہیں۔
اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ ہمسائے کی دیوار سے دیوار بڑی نہیں کی جاتی ہے۔
اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ کلیجہ چبانے والوں کو بھی معافیاں ملتی ہیں۔
اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ آج ہم
کھو کھلے نعروں کی بجائے اپنی اصلیت کو پہچانیں۔
جنابِ صدر! یہ کس نے کہا کہ اعتدال پسند لوگوں کی پوشاکیں نو چ لینے کا
نام ہے۔ یہ کس نے کہا کہ اعتدال پسندی کا مطلب بابری مسجدیں گروانا ہے بلکہ
اعتدال پسندی کا اصول تو علی الاعلان کہتا ہے! کہ بیعت شجرہ کے جان نثار
سپا ہو! خدا تمہیں فتح مبین کی خوشخبری دیتا ہے۔
جناب صدر! در اصل ہمارے سمجھنے میں ابھی بچپنا ہے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ
وقت کے تقاضے ہم سے کیا طلب کرتے ہیں۔ ہمیں پہلے خود کو ان مضبوط بنیادوں
پر کھڑا کرنا ہے ۔ ابھی ہم میں وہ جانثار ہیں جو اسلام کے نام پر گلیوں
کوچوں میں پتھر کھا سکیں مگر وہ عمر خطابؓ پیدا نہیں ہوا جس کے بعد ہم بت
خانوں میں علی الاعلان اللہ اکبر کی صدائیں بلند کریں۔ ہمیں تسلیم کر نا
چاہئے کہ آج ہم کمزور ہیں اور اگر ایک ایک کرکے کٹتے رہے تو بازو بھی بہت
اور سر بھی بہت کی داستانیں دم توڑ جائیں گی۔ اعتدال پسندی کا اعلان ہماری
میدانِ جنگ سے واپسی کا نام نہیں بلکہ ایک بے مثل حکمت عملی ہے جس پر عمل
کر کے ہم نشاط ثانیہ اسلام کا قلعہ تعمیر کریں گے۔
لوٹ جا عہد نبیؐ کی سمت اے رفتار جہاں
پھر میری پسماندگی کو ارتقا در کار ہے
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا ، گیا دور گراں خوابی
جی ہاں جنابِ صدر! روشن خیال اعتدال پسندی اعتدال پسندی کی ایسی روش ہے جس
پر چل کر ہم ملک و قوم کی قسمت سنوار سکتے ہیں۔ ’’خیر الامور او سطھا‘‘ کی
وادی سے نکلا یہ آفتاب عالم تاب جسے مسلمانوں کی مردہ رگوں سے تعصب کا زہر
نکال کر اخوت کا لہو بھرنا ہے ابھی عالم خیال سے نکل کر عالم عمل میں جلوہ
افروز نہیں ہوا کہ حاسدوں کی آنکھیں اس نور سے چند ھیا ئی جاتی ہیں۔ وہ
ابھی سے پکارے جاتے ہیں اس روشنی اس چراغ کو گل کر دو جو ہماری براہمی کے
رستے میں دیوار بن جائے۔ اس شمع کا فور کو مٹا دو جس کو تھام کر لوگ ان کی
چوکٹھوں پر سجدے کرنے سے کترانے لگیں۔ خداے لم یزل کی قسم! ہمیں اسلام کی
نشاط ثانیہ کیلئے اجتہاد و قیاس کی سنت کو زندہ کر نا ہو گا۔ ہمیں پھر سے
وہ بھولا ہو ا سبق دھرانا ہوگا۔ ہمیں پھر سے خیرات کے کشکولی زیور اتار نا
ہوں گے۔ اپنی آنکھوں کی گندی گدلی پتلیوں کو دھو کر نئے زمانے ، نئی صبح و
شام کا مطالعہ کر نا ہوگا۔ لباس کہنہ کو ترک کرکے پھر وہی فقیری چولہ
پہننا ہوگا جہاں علم موسیٰ حیرت فروش ہو ا کر تا ہے جہاں
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الہی
اور جنابِ والا روشن خیال اعتدال پسندی ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو ہماری کھوئی ہوئی میراث کو بحال کر ے گا کیوں کہ
کتاب ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جناب صدر!کچھ لوگ امت مسلمہ پر تہذیبی یلغار کے پس منظر میں ہونے والی
ہولیوں کواعتدال پسندی کا سر چشمہ قرار دے رہے ہیں وہ ہندی فلموں کے عروج سے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ مسلمان کے ماتھے کا محراب اب ہندوؤں کے ماتھے کی
تلک سے بدل جائیگا وہ دلیل دیتے ہیں کہ ’’نظر نظر‘‘ کی ساری الجھنیں اعتدال
پسندی کی پیدا کر دہ ہیں۔
جناب صدر! میں ان لوگوں پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اعتدال پسندی تو یہ
ہے کوئی مسلمان بھی کسی یہودی عورت کے گہنے چرائے تو دربار نبویؐ میں سزا
وار ٹھہر تا ہے۔
اعتدال پسندی تو یہ ہے سار ا شہر فتح کرلینے کے بعد بھی عام معافی کا
اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ فتح کے نشے میں دشمنوں کو
گھوڑوں کے ٹاپوں تلے نہیں روندا جاتا۔ اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ مفتوح
علاقے کی کھیتیاں نہیں اجاڑی جاتیں اعتدال پسند ی تو ہے کہ دشمن تلوار کی
نوک پرہو اور تھوک دے تو اسے ’’ذاتی بدلہ‘‘ نہ لینے کی صدا دے کر قتل نہیں
کیا جاتا اعتدال پسندی تو ہے ساری اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیئے جاتے ہیں۔
اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ ہمسائے کی دیوار سے دیوار بڑی نہیں کی جاتی ہے۔
اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ کلیجہ چبانے والوں کو بھی معافیاں ملتی ہیں۔
اعتدال پسندی تو یہ ہے کہ آج ہم
کھو کھلے نعروں کی بجائے اپنی اصلیت کو پہچانیں۔
جنابِ صدر! یہ کس نے کہا کہ اعتدال پسند لوگوں کی پوشاکیں نو چ لینے کا
نام ہے۔ یہ کس نے کہا کہ اعتدال پسندی کا مطلب بابری مسجدیں گروانا ہے بلکہ
اعتدال پسندی کا اصول تو علی الاعلان کہتا ہے! کہ بیعت شجرہ کے جان نثار
سپا ہو! خدا تمہیں فتح مبین کی خوشخبری دیتا ہے۔
جناب صدر! در اصل ہمارے سمجھنے میں ابھی بچپنا ہے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ
وقت کے تقاضے ہم سے کیا طلب کرتے ہیں۔ ہمیں پہلے خود کو ان مضبوط بنیادوں
پر کھڑا کرنا ہے ۔ ابھی ہم میں وہ جانثار ہیں جو اسلام کے نام پر گلیوں
کوچوں میں پتھر کھا سکیں مگر وہ عمر خطابؓ پیدا نہیں ہوا جس کے بعد ہم بت
خانوں میں علی الاعلان اللہ اکبر کی صدائیں بلند کریں۔ ہمیں تسلیم کر نا
چاہئے کہ آج ہم کمزور ہیں اور اگر ایک ایک کرکے کٹتے رہے تو بازو بھی بہت
اور سر بھی بہت کی داستانیں دم توڑ جائیں گی۔ اعتدال پسندی کا اعلان ہماری
میدانِ جنگ سے واپسی کا نام نہیں بلکہ ایک بے مثل حکمت عملی ہے جس پر عمل
کر کے ہم نشاط ثانیہ اسلام کا قلعہ تعمیر کریں گے۔
لوٹ جا عہد نبیؐ کی سمت اے رفتار جہاں
پھر میری پسماندگی کو ارتقا در کار ہے