رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی‘‘
صدر واجب الاحترام و حاضرین عالی مقام آج کی تقریب کا موضوع ہے۔ ’’رہ گئی
رسم اذاں روح بلالی نہ رہی‘‘ جی ہاںیہ آج کی کڑوی حقیقت ہے کہ حقائق کے منہ
پر دھندلکوں کے نقاب ہیں۔ سچائی اپنی تعبیر کھو چکی۔ تلواریں پگھل کر رباب
کی تاریں بن گئیں۔ سامان حرب بیچ کر مصلے خرید لئے گئے۔ محمود و ایاز کی
صفوں میں تفریق پیدا ہو گئی۔ خودی کا زیور بک چکا۔ بت فروشی عام ہو چکی۔
رشوت کی پیٹیوں میں ترقیاں سج گئیں۔ مجاہدوں کے سینوں پر بنیاد پرستی کے
تمغے سجا دیئے گئے۔ کتابوں کا نصاب لارڈ میکالے کے فرامین میں دب گیا۔
مسلمانیت پر بزم کے نعروں میں کھو گئی۔ مشین نے حیا ء کی چادروں کی دھجیاں
اڑا دیں کہ آج
کر گس کاجہاں ہی شاہین کا جہاں ہے
ملتی جلتی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے
کہ آج رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
جنابِ صدر! زندگی سوچ کے بندھنوں میں بند ھ چکی! ہم آج مسلمان ہو کر اپنی
مسلمانی پر شرمندہ ہیں! مغربیت کی زد میں ہماری داڑھیاں دھول سے اٹ گئیں۔
غیر کی تقلید نے میری بہنوں کے سروں سے سکارف کھینچ لئے۔ آج ہم کلمہ گو تو
ہیں مگر کلمہ کے پابند نہیں۔ آج ہم مومن تو کہلاتے ہیں مگر شمشیر پہ بھروسہ
بھی کرتے ہیں۔ آج ہم مجاہد تو کہلاتے ہیں مگر فنافی اللہ پر یقین نہیں
رکھتے۔ آج ہم اتحاد امت کا نعرہ تو بلند کر تے ہیں مگر ’’المسلم
اخوالمسلم‘‘ کے فلسفے کو بھول گئے ہیں۔ آج ہم اتفاق کا درس تو دیتے ہیں مگر
’’مواخات مدینہ‘‘ کو فراموش کر چکے۔ کہ آج ہم تقدیر کا سُر تو الاپتے ہیں
مگر’’ بتا تیری رضا کیا ہے‘‘ کے ’’سرِ نہاں‘‘ کو نہیں سمجھتے ہیں کہ آج
کہنا پڑتا ہے ۔
اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا کیوں خالی اللہ کے بندوں سے حرم
جنابِ صدر! آج مسلمان جہان کی ذلتوں کا شکار ہیں کہیں کشمیر کی سر سبز
وادیوں میں لہو ہو رہے ہیں کہیں کسووو میں کٹ رہے ہیں۔ کہیں عراق کے
مرغزاروں میں ان سے ’’ابو غریب‘‘ کی جیلیں بھری جارہی ہیں۔ کہیں چیچنیا میں
ٹینکوں تلے روندے جا رہے ہیں۔ کہیں اسرائیلی درندوں کے پنجوں میں دم توڑ
رہے ہیں کہیں تو رہ بورہ کی پہاڑیوں میں پناہ ڈھونڈ ھتے پھر رہے ہیں کہ آج
ہم گلی گلی میں رسوا ہیں۔
آج ہماری للکار میں وہ دم نہیں کہ دشمنوں کے ہاتھوں سے تلواریں گر جائیںآج
ہماری نگاہوں میں وہ دم نہیں کہ مخالفوں کے دل چِر جائیں ۔ آج ہم میں
کشتیاں جلانے کا حوصلہ نہیں۔ میں پوچھتی ہوں
تھے تو وہ آبا تمہارے مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
جی ہاں! جناب صدر!
آج رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی۔ کہ آج ہمارے کہنے اور کر نے میں
فرق ہے۔ آج ہمیں یہ عہد کر نا ہے رسم اذاں میں روح بلالی پھونکیں گے۔
مسلمان کہلانے میں مسلمان بننے پر فخر کریں گے۔
کیا فردوسی مرحوم نے ایران کو زندہ
خدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ
صدر واجب الاحترام و حاضرین عالی مقام آج کی تقریب کا موضوع ہے۔ ’’رہ گئی
رسم اذاں روح بلالی نہ رہی‘‘ جی ہاںیہ آج کی کڑوی حقیقت ہے کہ حقائق کے منہ
پر دھندلکوں کے نقاب ہیں۔ سچائی اپنی تعبیر کھو چکی۔ تلواریں پگھل کر رباب
کی تاریں بن گئیں۔ سامان حرب بیچ کر مصلے خرید لئے گئے۔ محمود و ایاز کی
صفوں میں تفریق پیدا ہو گئی۔ خودی کا زیور بک چکا۔ بت فروشی عام ہو چکی۔
رشوت کی پیٹیوں میں ترقیاں سج گئیں۔ مجاہدوں کے سینوں پر بنیاد پرستی کے
تمغے سجا دیئے گئے۔ کتابوں کا نصاب لارڈ میکالے کے فرامین میں دب گیا۔
مسلمانیت پر بزم کے نعروں میں کھو گئی۔ مشین نے حیا ء کی چادروں کی دھجیاں
اڑا دیں کہ آج
کر گس کاجہاں ہی شاہین کا جہاں ہے
ملتی جلتی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے
کہ آج رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
جنابِ صدر! زندگی سوچ کے بندھنوں میں بند ھ چکی! ہم آج مسلمان ہو کر اپنی
مسلمانی پر شرمندہ ہیں! مغربیت کی زد میں ہماری داڑھیاں دھول سے اٹ گئیں۔
غیر کی تقلید نے میری بہنوں کے سروں سے سکارف کھینچ لئے۔ آج ہم کلمہ گو تو
ہیں مگر کلمہ کے پابند نہیں۔ آج ہم مومن تو کہلاتے ہیں مگر شمشیر پہ بھروسہ
بھی کرتے ہیں۔ آج ہم مجاہد تو کہلاتے ہیں مگر فنافی اللہ پر یقین نہیں
رکھتے۔ آج ہم اتحاد امت کا نعرہ تو بلند کر تے ہیں مگر ’’المسلم
اخوالمسلم‘‘ کے فلسفے کو بھول گئے ہیں۔ آج ہم اتفاق کا درس تو دیتے ہیں مگر
’’مواخات مدینہ‘‘ کو فراموش کر چکے۔ کہ آج ہم تقدیر کا سُر تو الاپتے ہیں
مگر’’ بتا تیری رضا کیا ہے‘‘ کے ’’سرِ نہاں‘‘ کو نہیں سمجھتے ہیں کہ آج
کہنا پڑتا ہے ۔
اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا کیوں خالی اللہ کے بندوں سے حرم
جنابِ صدر! آج مسلمان جہان کی ذلتوں کا شکار ہیں کہیں کشمیر کی سر سبز
وادیوں میں لہو ہو رہے ہیں کہیں کسووو میں کٹ رہے ہیں۔ کہیں عراق کے
مرغزاروں میں ان سے ’’ابو غریب‘‘ کی جیلیں بھری جارہی ہیں۔ کہیں چیچنیا میں
ٹینکوں تلے روندے جا رہے ہیں۔ کہیں اسرائیلی درندوں کے پنجوں میں دم توڑ
رہے ہیں کہیں تو رہ بورہ کی پہاڑیوں میں پناہ ڈھونڈ ھتے پھر رہے ہیں کہ آج
ہم گلی گلی میں رسوا ہیں۔
آج ہماری للکار میں وہ دم نہیں کہ دشمنوں کے ہاتھوں سے تلواریں گر جائیںآج
ہماری نگاہوں میں وہ دم نہیں کہ مخالفوں کے دل چِر جائیں ۔ آج ہم میں
کشتیاں جلانے کا حوصلہ نہیں۔ میں پوچھتی ہوں
تھے تو وہ آبا تمہارے مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
جی ہاں! جناب صدر!
آج رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی۔ کہ آج ہمارے کہنے اور کر نے میں
فرق ہے۔ آج ہمیں یہ عہد کر نا ہے رسم اذاں میں روح بلالی پھونکیں گے۔
مسلمان کہلانے میں مسلمان بننے پر فخر کریں گے۔
کیا فردوسی مرحوم نے ایران کو زندہ
خدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ