سعد ان دنوں اوکاڑہ کے ایک اچھے تعلیمی ادارے کا طالب علم تھا۔ کلاس ہفتم اے
کے چند گنے چنے بچوں میں اسکا نام شامل نہ کرنا اس کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
صاف ستھرے کپڑے پہننا، ہر کسی کو مسکرا کے ملنا، بڑوں کا ادب کر نا،
استادوں کا احترام کر نا ، ہم سبقوں کے کا م آنا، اپنی چیزیں دوسروں کے
ساتھ بانٹنا یہ سب باتیں اسے سکھائے بغیرہی آگئیں تھیں۔ شاید اس لئے کہ اس
کا نام ہی ’’سعد‘‘ تھا یعنی وہ سعادت والا تھا یا پھر اس لئیے کہ اس کے
والد صاحب ایک اچھے زمیندار تھے اور روپے پیسے کی کبھی کمی نہ رہی تھی اس
لئے چیزیں بانٹ لینے سے اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔ کیو ں کہ جہاں
چار بچے ہیں ایک ٹافی ہے
اب مساوات اضافی ہے۔
کا سلسلہ آجائے ۔ جہاں تنگ دستی تندرستی کے رستے میں حائل ہوتی ہو۔ جہاں
خوبصورت بستہ خرید لیا جائے تو کتابوں کے پیسے پورے نہ ہو تے ہوں ۔ جہاں
بانٹ لینے سے خود کو خالی ہاتھ رہنے کا خدشہ ہو۔ وہاں انسان لالچی ہو جاتا
ہے۔ وہاں وہ ساچتا ہے کہ پہلے میں خود اپنا پیٹ تو بھروں پھر دوسروں کے
متعلق سوچوں گا۔ شاید امیر باپ کا بیٹا ہو نا سعد کے اچھا ہو نے کی وجہ تھی
مگر یہاں ایسا نہیں تھا وہ اچھا اس لئے بھی تھا کہ ’’مسلمان مسلمان کا
بھائی ہے‘‘ کا سبق اس کے د ل میں اتر گیا تھا۔ اس یہ بہت اچھا لگتا تھا کہ
اس کے ڈھیر سارے بھائی ہو۔ اس کے ہر خوشی اور غم میں شریک ہوں۔ اور ایسا
تھا بھی وہ اپنی کلاس میں سب بھائیوں کیطرح ہی رہتے تھے۔ایک دوسرے کا خیال
رکھتے ، پنسل ، ربر، شارپنر جیسی معمولی چیزوں کیلئے ایک دوسرے سے جھگڑا
نہیں کرتے تھے۔ پہلے پہل ان میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہو جاتی وہ کئی
کئی دن تک ایک دوسرے سے بات نہ کرتے شاید وہ اپنی اس بری عادت پر قائم
رہتے کہ اسلا میات کی کتاب ان کیلئے ’’ایثار‘‘ کا سبق لے آئی۔ یہ نام ان
کیلئے نیا نہیں تھا۔ کلاس کے آخری بیچ پر بیٹھنے والے، ایک سانولے رنگ والے
لڑکے کو وہ اکثر ’’ایثار علی‘‘ کے نام پر ’’لبیک‘‘ اور ’’یس سر‘‘ کہنے
سنتے آئے تھے۔ مگر وہ اس نام کے چکر کو کبھی نہ سمجھتے اگر استاد صاحب
انہیں جنگ قادسیہ میں پیاس کے ہاتھوں شہید ہو جانے والے صحابہ کا واقعہ نہ
سناتے ہوایوں تھا کہ جنگ میں بہت سے مسلمان سپاہی زخمی ہو گئے۔ وہ زخمی
سپاہی درد کی وجہ سے کراہ رہے تھے اور پانی کی پیاس سب کے لبوں پر تھی۔
اتنے میں ایک صحابی پانی کا مشکیزہ لے کر آ پہنچتے ہیں۔ وہ ایک زخمی کو
پانی پلانے لگتے ہیں تو اچانک قریب لیٹے دوسرے صحابی کی آواز سنائی دیتی
ہیش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آواز سنتے ہی زخمی سپاہی پانی
پلانے والے سے کہتا ہے کہ ٹھہرو! پہلے میرے دوسرے بھائی کو پانی پلادو اسے
مجھ سے زیادہ ضرورت ہے۔ پانی پلانے والا اگلے شخص تک جاتا ہے اور ابھی
پانی پلانے والا، پانی پلانے ہی لگا ہوتا ہے کہ کہیں اور سے صدا بلند ہو تی
ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا زخمی پانی پلانے والے سے
درخواست کر تا ہے کہ میرے اس بھائی کو پانی کی زیادہ ضرورت ہے اور جب وہ
وہاں پہنچتا ہے تو آخری پانی پینے والا جان، جانِ آفریں کے سپرد کر چکا ہو
تا ہے۔
’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا عَلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘
یہ واقعہ سعد کی زندگی میں ایک انقلاب لے آیا تھا۔ وہ جب بھی موقع ملتا
اس واقعہ کو سوچتا اور جتنا سوچتا اتنا ہی حیران ہو تا جاتا ہے کہ ایسا
کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی زندگی کی آخری سانسوں کا آخری پانی کا
گھونٹ دوسرے کے نام کر دے۔ اپنی تکلیف کو بھلا کر دوسروں کی تکلیف کا خیال
رکھے۔ پھر زندگی ’’سعد‘‘ کیلئے بہت آسان ہو گئی۔ اسے ایثار کا مطلب سمجھ
میں آ گیا۔ اسے ایثار علی کے آخری بنچ پر بیٹھنے کا مطلب سمجھ میں آگیا۔
اسے اپنی چیزیں دوسروں کیساتھ بانٹنا آ گیا۔ جب اتنی ساری چیزیں آئیں تو
کچھ چیز یں خود بخود زندگی سے غائب ہو گئیں۔ دوستوں سے لڑ نا، گھر والوں سے
جھگڑنا خود بخود کم ہو تارہا۔ وہ دوستوں میں ایک اچھا دوست بنتا گیا اور
گھر والوں کا فر ماں بیٹا، غرضیکہ ہر شخص اس سے خوش تھا۔ مگر اچانک اس سکھ
بھری زندگی میں ایک بہت بڑی آزمائش نے اس کو آ گھیرا۔ آج وہ کارٹون دیکھنے
بیٹھا تو ٹیلی ویژن اسے مظفر آباد، بالا کوٹ ، باغ اور پاکستان کے دوسرے
حصوں میں زلزلوں کی خبر دے رہا تھا۔ اس نے زندگی میں کسی مرتے ہو ئے آدمی
کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے ابھی مرنے کا مطلب واضح نہیں تھا۔ اسے یاد
تھا کہ ایک دفعہ وہ گاؤں کسی رشتہ دار کے فوت ہو نے پر گیا تو وہاں موجود
لوگوں نے بچوں کو پرے پرے ہٹا دیا تھا۔ اس سے اسے لگا تھا کہ شاید یہ بچوں
کے سمجھنے کی چیزنہیں ۔ لیکن وہ دو سال پہلے کی بات تھی۔ اب اسے پہلے سے
زیادہ بچوں کی سمجھ تھی۔ ٹی وی چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ ’’ مرنا‘‘ کسے
کہتے ہیں۔ ’’سکول گراؤنڈ‘‘ کے کنارے پر کھڑے اسے بھی چند لمحوں کیلئے زمین
کے ہلنے کا احساس ہو ا تھا مگر اسے یہ ہر گز خبر نہ تھی کہ زمین کا ہی ہلنا
لا کھوں چہروں سے مسکرا ہٹیں چھین لے گا۔ اسے سب کچھ بے رونق لگ تھا۔ ٹیلی
ویژن ، ٹیبل ٹینس، چیونگم، کھانا، سب کچھ بے معنی محسوس ہو رہا تھا ۔ کوئی
بار بار اس کے کانوں میں کہہ رہا تھا ’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہو تا
ہے‘‘ ۔ وہ بار بار اس خیال کو سمجھنے کی کوشش کر تا کہ اس کا کوئی بھائی
اس سے کٹ گیا ہے۔ لیکن وہ اس خیال کو پورا نہیں کر پارہا تھا۔ یہ بات اس کی
سمجھ سے بالا تر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی ادھیڑ بُن میں وہ ڈرائینگ روم کے شو
کیس میں سجی کتابوں تک جا پہنچاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتابوں کی ترتیب سے دل بہلا تے
ہوئے اسے ’’احادیث رسول اکرمؐ‘‘ کا اردو ترجمہ مل گیا۔ ایک ہی صفحہ پلٹا
تھا کہ ایک بات نے اس کی سوچ کو رستہ دے دیا اس کے خیال کو پورا کر
دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر ہی اندر اسے بہت اطمینان کا احساس ہوا ۔ ایک انجانی
خوشی کا احساس جو آج اس کی زندگی میں پہلی بار داخل ہو ئی تھی۔ کچھ پا
لینے کی خوشی ۔ کچھ کر نے کی خوشی، اب وہ شدت سے صبح سکول جانے کا انتظار
کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ اسے ایک کام کر نا تھا۔ شاید اس کی زندگی
کا سب سے بڑا کام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید وہ یہ کام کر نے کے
بعد بہت بڑا آدمی بن جائے۔ اسے اپنی زندگی کو کوئی مقصد نظر آ نے لگا تھا۔
اسے محسوس ہو نے لگا تھا وہ سعد شاید بنایا ہی اس لئے گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسب
سابق کلاس شروع ہو ئی مگر زلزلے کے خوف سے ہر بچہ اندر ہی اندر سہمہ ہو ا
تھا ۔ گو کہ وہ ایک پرائیویٹ سکول کی عمارت میں بیٹھے تھے۔ جس کی عمارت
سرکاری سکول سے خاصی مضبوط لگتی تھی مگر کیا خبر یہ عمارت بھی اس سرکاری
ٹھیکیدار کی بنائی ہو ئی ہو۔ جس نے باغ کے سکول تعمیر کئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھیں اپنے سکول کی دیواروں سے اعتماد اٹھتا محسوس ہو رہا تھا۔ سعد چپکے سے
اٹھا اور استاد محرتم سے اجازت طلب کر نے کے بعد ایک چاک تھا ما اور بلیک
بورڈ پر لکھ دیا۔
آنحضرت ؐ نے فر مایا جو کوئی اچھے عمل کی بنیاد ڈالتا ہے اور دوسرے لوگ
بھی اس کے پیچھے ہیں تو اسے اپنے عمل کا اجر بھی ملتا ہے اور لوگوں کے
اعمال کا بھی ۔ اور جو کوئی بری راہ نکالتا ہے اور لوگ اس کا اتباع کر تے
ہیں تو اس پر اپنا بھی وبال ہو گا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کی پیر
وی کی۔
یہ لکھنے کے بعد ’’سعد‘‘ بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے دوستو ۔۔۔۔۔۔ میرے
بھائیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آج ایک اچھے عمل کی بنیاد ڈالنے والا ہوں مں چاہتا ہوں
اس سارے سکول کیلئے اس سارے شہر کیلئے آپ بھی اچھے عمل کی بنیاد رکھنے
والے بنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بارش کا پہلا قطرہ بنتے ہو ئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اپنی ساری
پاکٹ منی اور ساری عیدی‘‘ زلزلہ زدگان کے نام کر تا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کلا س
کے آخری بنچ سے ایثار علی کی آواز گونجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
درمیان سے عثمان بولا میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! پھر یہ آواز ساری کلاس کی آواز
بنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے استاد صاحب کی اجازت سے مختلف کلاسوں میں جا کر
دوسرے دوستوں سے ’’چندہ برائے زلزلہ زدگان‘‘ کی اپیل کیلئے اجازت
چاہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہر شخص نیک کا م کا حسہ دار بنتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور
نیک کام کی طرح ڈالنے والا آج بہت شاداں و فرحاں تھا کہ اس نے اپنی زندگی
کا سب سے بڑا کام کر لیا ہے۔
کے چند گنے چنے بچوں میں اسکا نام شامل نہ کرنا اس کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
صاف ستھرے کپڑے پہننا، ہر کسی کو مسکرا کے ملنا، بڑوں کا ادب کر نا،
استادوں کا احترام کر نا ، ہم سبقوں کے کا م آنا، اپنی چیزیں دوسروں کے
ساتھ بانٹنا یہ سب باتیں اسے سکھائے بغیرہی آگئیں تھیں۔ شاید اس لئے کہ اس
کا نام ہی ’’سعد‘‘ تھا یعنی وہ سعادت والا تھا یا پھر اس لئیے کہ اس کے
والد صاحب ایک اچھے زمیندار تھے اور روپے پیسے کی کبھی کمی نہ رہی تھی اس
لئے چیزیں بانٹ لینے سے اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔ کیو ں کہ جہاں
چار بچے ہیں ایک ٹافی ہے
اب مساوات اضافی ہے۔
کا سلسلہ آجائے ۔ جہاں تنگ دستی تندرستی کے رستے میں حائل ہوتی ہو۔ جہاں
خوبصورت بستہ خرید لیا جائے تو کتابوں کے پیسے پورے نہ ہو تے ہوں ۔ جہاں
بانٹ لینے سے خود کو خالی ہاتھ رہنے کا خدشہ ہو۔ وہاں انسان لالچی ہو جاتا
ہے۔ وہاں وہ ساچتا ہے کہ پہلے میں خود اپنا پیٹ تو بھروں پھر دوسروں کے
متعلق سوچوں گا۔ شاید امیر باپ کا بیٹا ہو نا سعد کے اچھا ہو نے کی وجہ تھی
مگر یہاں ایسا نہیں تھا وہ اچھا اس لئے بھی تھا کہ ’’مسلمان مسلمان کا
بھائی ہے‘‘ کا سبق اس کے د ل میں اتر گیا تھا۔ اس یہ بہت اچھا لگتا تھا کہ
اس کے ڈھیر سارے بھائی ہو۔ اس کے ہر خوشی اور غم میں شریک ہوں۔ اور ایسا
تھا بھی وہ اپنی کلاس میں سب بھائیوں کیطرح ہی رہتے تھے۔ایک دوسرے کا خیال
رکھتے ، پنسل ، ربر، شارپنر جیسی معمولی چیزوں کیلئے ایک دوسرے سے جھگڑا
نہیں کرتے تھے۔ پہلے پہل ان میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہو جاتی وہ کئی
کئی دن تک ایک دوسرے سے بات نہ کرتے شاید وہ اپنی اس بری عادت پر قائم
رہتے کہ اسلا میات کی کتاب ان کیلئے ’’ایثار‘‘ کا سبق لے آئی۔ یہ نام ان
کیلئے نیا نہیں تھا۔ کلاس کے آخری بیچ پر بیٹھنے والے، ایک سانولے رنگ والے
لڑکے کو وہ اکثر ’’ایثار علی‘‘ کے نام پر ’’لبیک‘‘ اور ’’یس سر‘‘ کہنے
سنتے آئے تھے۔ مگر وہ اس نام کے چکر کو کبھی نہ سمجھتے اگر استاد صاحب
انہیں جنگ قادسیہ میں پیاس کے ہاتھوں شہید ہو جانے والے صحابہ کا واقعہ نہ
سناتے ہوایوں تھا کہ جنگ میں بہت سے مسلمان سپاہی زخمی ہو گئے۔ وہ زخمی
سپاہی درد کی وجہ سے کراہ رہے تھے اور پانی کی پیاس سب کے لبوں پر تھی۔
اتنے میں ایک صحابی پانی کا مشکیزہ لے کر آ پہنچتے ہیں۔ وہ ایک زخمی کو
پانی پلانے لگتے ہیں تو اچانک قریب لیٹے دوسرے صحابی کی آواز سنائی دیتی
ہیش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آواز سنتے ہی زخمی سپاہی پانی
پلانے والے سے کہتا ہے کہ ٹھہرو! پہلے میرے دوسرے بھائی کو پانی پلادو اسے
مجھ سے زیادہ ضرورت ہے۔ پانی پلانے والا اگلے شخص تک جاتا ہے اور ابھی
پانی پلانے والا، پانی پلانے ہی لگا ہوتا ہے کہ کہیں اور سے صدا بلند ہو تی
ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا زخمی پانی پلانے والے سے
درخواست کر تا ہے کہ میرے اس بھائی کو پانی کی زیادہ ضرورت ہے اور جب وہ
وہاں پہنچتا ہے تو آخری پانی پینے والا جان، جانِ آفریں کے سپرد کر چکا ہو
تا ہے۔
’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا عَلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘
یہ واقعہ سعد کی زندگی میں ایک انقلاب لے آیا تھا۔ وہ جب بھی موقع ملتا
اس واقعہ کو سوچتا اور جتنا سوچتا اتنا ہی حیران ہو تا جاتا ہے کہ ایسا
کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی زندگی کی آخری سانسوں کا آخری پانی کا
گھونٹ دوسرے کے نام کر دے۔ اپنی تکلیف کو بھلا کر دوسروں کی تکلیف کا خیال
رکھے۔ پھر زندگی ’’سعد‘‘ کیلئے بہت آسان ہو گئی۔ اسے ایثار کا مطلب سمجھ
میں آ گیا۔ اسے ایثار علی کے آخری بنچ پر بیٹھنے کا مطلب سمجھ میں آگیا۔
اسے اپنی چیزیں دوسروں کیساتھ بانٹنا آ گیا۔ جب اتنی ساری چیزیں آئیں تو
کچھ چیز یں خود بخود زندگی سے غائب ہو گئیں۔ دوستوں سے لڑ نا، گھر والوں سے
جھگڑنا خود بخود کم ہو تارہا۔ وہ دوستوں میں ایک اچھا دوست بنتا گیا اور
گھر والوں کا فر ماں بیٹا، غرضیکہ ہر شخص اس سے خوش تھا۔ مگر اچانک اس سکھ
بھری زندگی میں ایک بہت بڑی آزمائش نے اس کو آ گھیرا۔ آج وہ کارٹون دیکھنے
بیٹھا تو ٹیلی ویژن اسے مظفر آباد، بالا کوٹ ، باغ اور پاکستان کے دوسرے
حصوں میں زلزلوں کی خبر دے رہا تھا۔ اس نے زندگی میں کسی مرتے ہو ئے آدمی
کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے ابھی مرنے کا مطلب واضح نہیں تھا۔ اسے یاد
تھا کہ ایک دفعہ وہ گاؤں کسی رشتہ دار کے فوت ہو نے پر گیا تو وہاں موجود
لوگوں نے بچوں کو پرے پرے ہٹا دیا تھا۔ اس سے اسے لگا تھا کہ شاید یہ بچوں
کے سمجھنے کی چیزنہیں ۔ لیکن وہ دو سال پہلے کی بات تھی۔ اب اسے پہلے سے
زیادہ بچوں کی سمجھ تھی۔ ٹی وی چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ ’’ مرنا‘‘ کسے
کہتے ہیں۔ ’’سکول گراؤنڈ‘‘ کے کنارے پر کھڑے اسے بھی چند لمحوں کیلئے زمین
کے ہلنے کا احساس ہو ا تھا مگر اسے یہ ہر گز خبر نہ تھی کہ زمین کا ہی ہلنا
لا کھوں چہروں سے مسکرا ہٹیں چھین لے گا۔ اسے سب کچھ بے رونق لگ تھا۔ ٹیلی
ویژن ، ٹیبل ٹینس، چیونگم، کھانا، سب کچھ بے معنی محسوس ہو رہا تھا ۔ کوئی
بار بار اس کے کانوں میں کہہ رہا تھا ’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہو تا
ہے‘‘ ۔ وہ بار بار اس خیال کو سمجھنے کی کوشش کر تا کہ اس کا کوئی بھائی
اس سے کٹ گیا ہے۔ لیکن وہ اس خیال کو پورا نہیں کر پارہا تھا۔ یہ بات اس کی
سمجھ سے بالا تر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی ادھیڑ بُن میں وہ ڈرائینگ روم کے شو
کیس میں سجی کتابوں تک جا پہنچاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتابوں کی ترتیب سے دل بہلا تے
ہوئے اسے ’’احادیث رسول اکرمؐ‘‘ کا اردو ترجمہ مل گیا۔ ایک ہی صفحہ پلٹا
تھا کہ ایک بات نے اس کی سوچ کو رستہ دے دیا اس کے خیال کو پورا کر
دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر ہی اندر اسے بہت اطمینان کا احساس ہوا ۔ ایک انجانی
خوشی کا احساس جو آج اس کی زندگی میں پہلی بار داخل ہو ئی تھی۔ کچھ پا
لینے کی خوشی ۔ کچھ کر نے کی خوشی، اب وہ شدت سے صبح سکول جانے کا انتظار
کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ اسے ایک کام کر نا تھا۔ شاید اس کی زندگی
کا سب سے بڑا کام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید وہ یہ کام کر نے کے
بعد بہت بڑا آدمی بن جائے۔ اسے اپنی زندگی کو کوئی مقصد نظر آ نے لگا تھا۔
اسے محسوس ہو نے لگا تھا وہ سعد شاید بنایا ہی اس لئے گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسب
سابق کلاس شروع ہو ئی مگر زلزلے کے خوف سے ہر بچہ اندر ہی اندر سہمہ ہو ا
تھا ۔ گو کہ وہ ایک پرائیویٹ سکول کی عمارت میں بیٹھے تھے۔ جس کی عمارت
سرکاری سکول سے خاصی مضبوط لگتی تھی مگر کیا خبر یہ عمارت بھی اس سرکاری
ٹھیکیدار کی بنائی ہو ئی ہو۔ جس نے باغ کے سکول تعمیر کئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھیں اپنے سکول کی دیواروں سے اعتماد اٹھتا محسوس ہو رہا تھا۔ سعد چپکے سے
اٹھا اور استاد محرتم سے اجازت طلب کر نے کے بعد ایک چاک تھا ما اور بلیک
بورڈ پر لکھ دیا۔
آنحضرت ؐ نے فر مایا جو کوئی اچھے عمل کی بنیاد ڈالتا ہے اور دوسرے لوگ
بھی اس کے پیچھے ہیں تو اسے اپنے عمل کا اجر بھی ملتا ہے اور لوگوں کے
اعمال کا بھی ۔ اور جو کوئی بری راہ نکالتا ہے اور لوگ اس کا اتباع کر تے
ہیں تو اس پر اپنا بھی وبال ہو گا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کی پیر
وی کی۔
یہ لکھنے کے بعد ’’سعد‘‘ بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے دوستو ۔۔۔۔۔۔ میرے
بھائیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آج ایک اچھے عمل کی بنیاد ڈالنے والا ہوں مں چاہتا ہوں
اس سارے سکول کیلئے اس سارے شہر کیلئے آپ بھی اچھے عمل کی بنیاد رکھنے
والے بنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بارش کا پہلا قطرہ بنتے ہو ئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اپنی ساری
پاکٹ منی اور ساری عیدی‘‘ زلزلہ زدگان کے نام کر تا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کلا س
کے آخری بنچ سے ایثار علی کی آواز گونجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
درمیان سے عثمان بولا میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! پھر یہ آواز ساری کلاس کی آواز
بنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے استاد صاحب کی اجازت سے مختلف کلاسوں میں جا کر
دوسرے دوستوں سے ’’چندہ برائے زلزلہ زدگان‘‘ کی اپیل کیلئے اجازت
چاہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہر شخص نیک کا م کا حسہ دار بنتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور
نیک کام کی طرح ڈالنے والا آج بہت شاداں و فرحاں تھا کہ اس نے اپنی زندگی
کا سب سے بڑا کام کر لیا ہے۔