عید الضحیٰ‘‘
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
صدر واجب الاعزام و حاضریں عالی مقام! عید الضحیٰ ہمارا دوسرا بڑا مذہبی
تہوار ہے جوآنحضرتؐ کے جدِ امجد حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی بے
مثل قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے
معزز سامعین!
اسلام دین فطرت ہے اسکی یہی خوبی اسکو دوسرے مذاہب سے ممتاز کر تی ہے ۔
اسلام سے پہلے عربوں کی زندگی میں تہواروں کو اک خاص اہمیت حاصل تھی۔ مگر ان
کی افادیت سوائے عیش و عشرت، دولت کی نمود و نمائش کے سوا کچھ نہ تھی۔ مگر
اسلامی تہواروں نے نہ صرف عرب رسوم و رواج کی جگہ لے لی بلکہ قوم کی تربیت
پر ایسے نقوش چھوڑے کے ایثار و قر بانی انکی زندگیوں کا نمونہ بن گیا۔
جنابِ صدر!
حضرت ابراہیم ؑ کی قر بانی اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین اشیاء قر بان
کر دینے کا درس ہے اور اسماعیلؑ کا حکم خدا وندی کے آگے سر جھکا دینا اللہ
کی رضا کیلئے کٹ جانے کا سلیقہ لئے ہوئے ہے۔ یہ عید بکروں کے گلوں میں
گھنگھرو باندھ کر کاٹ دینے کا ہی نام نہیں بلکہ اپنی خواہشات کا لہو بہا کر
اسلام کو زندہ کر دینے کا نام ہے۔
یہ عید نئے کپڑے پہن کر بازاروں میں گھومنے کا نام نہیں بلکہ اپنی ضروریات
سے بالا ہو کر غربا اور مساکین میں خوشیاں بانٹنے کا نام ہے۔یہ عید نہ ہی
کھلونے خریدنے کا نام ہے بلکہ اس یاد گار کو ان لوگوں تک پہنچادینے کا نام
ہے جو قربانی کی سکت نہیں رکھتے ۔
جناب صدر! یہ عید تو ایک عہد ہے کہ اے خدا کے پیغمبر ہم تیری سنت کو زندہ
کر تے رہیں گے۔ یہ عید تو ایک وعدہ کہ اے خدا تیری رضا کیلئے ہم سر جھکاتے
رہیں گے۔ یہ عید تو دہرائی ہے ایثار و قر بانی کے بھولے سبق کی۔
پیارے ساتھیو! آؤ آج کے دن عہد کریں کہ اپنی خواہشات کو قر بان کر کے
احکام خدا وندی کی تعبیر کو جو درس ہمیں عید الضحیٰ کے توسط سے ملا ہے اس
کو زندہ رکھیں۔
اور اگر اپنا قافلہ عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑ نے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
صدر واجب الاعزام و حاضریں عالی مقام! عید الضحیٰ ہمارا دوسرا بڑا مذہبی
تہوار ہے جوآنحضرتؐ کے جدِ امجد حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی بے
مثل قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے
معزز سامعین!
اسلام دین فطرت ہے اسکی یہی خوبی اسکو دوسرے مذاہب سے ممتاز کر تی ہے ۔
اسلام سے پہلے عربوں کی زندگی میں تہواروں کو اک خاص اہمیت حاصل تھی۔ مگر ان
کی افادیت سوائے عیش و عشرت، دولت کی نمود و نمائش کے سوا کچھ نہ تھی۔ مگر
اسلامی تہواروں نے نہ صرف عرب رسوم و رواج کی جگہ لے لی بلکہ قوم کی تربیت
پر ایسے نقوش چھوڑے کے ایثار و قر بانی انکی زندگیوں کا نمونہ بن گیا۔
جنابِ صدر!
حضرت ابراہیم ؑ کی قر بانی اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین اشیاء قر بان
کر دینے کا درس ہے اور اسماعیلؑ کا حکم خدا وندی کے آگے سر جھکا دینا اللہ
کی رضا کیلئے کٹ جانے کا سلیقہ لئے ہوئے ہے۔ یہ عید بکروں کے گلوں میں
گھنگھرو باندھ کر کاٹ دینے کا ہی نام نہیں بلکہ اپنی خواہشات کا لہو بہا کر
اسلام کو زندہ کر دینے کا نام ہے۔
یہ عید نئے کپڑے پہن کر بازاروں میں گھومنے کا نام نہیں بلکہ اپنی ضروریات
سے بالا ہو کر غربا اور مساکین میں خوشیاں بانٹنے کا نام ہے۔یہ عید نہ ہی
کھلونے خریدنے کا نام ہے بلکہ اس یاد گار کو ان لوگوں تک پہنچادینے کا نام
ہے جو قربانی کی سکت نہیں رکھتے ۔
جناب صدر! یہ عید تو ایک عہد ہے کہ اے خدا کے پیغمبر ہم تیری سنت کو زندہ
کر تے رہیں گے۔ یہ عید تو ایک وعدہ کہ اے خدا تیری رضا کیلئے ہم سر جھکاتے
رہیں گے۔ یہ عید تو دہرائی ہے ایثار و قر بانی کے بھولے سبق کی۔
پیارے ساتھیو! آؤ آج کے دن عہد کریں کہ اپنی خواہشات کو قر بان کر کے
احکام خدا وندی کی تعبیر کو جو درس ہمیں عید الضحیٰ کے توسط سے ملا ہے اس
کو زندہ رکھیں۔
اور اگر اپنا قافلہ عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑ نے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا