آدم نے بہشت کے میوے کھا کر غلطی کی ، اس غلطی کے نتیجے میں اسے جنت بدر
کر دیا گیا۔زمین پر آکر مسائل نے جنم لیا یہ مسائل الجھتے گئے تو تنازعات
بن گئے۔ قابیل نے ہا بیل کو قتل کیا تو دنیا میں جنگ کی آہ وفغاں شروع ہو
گئی۔ کہیں گھوڑا آگے بڑ ھانے پر 40نسلیں تباہ ہو ئیں تو کہیں پانی پلانے پر
تنازعہءِ لا حاصل نے جنم لیا۔ فر عون خدائی دعوے کے ساتھ اپنے جنگی جرائم
کو جنم دیتا رہا اور تنازعات در تنازعات بنتے گئے ۔مسائل کے ریشم زلف یار
کی طرح الجھتے گئے۔ جنگ نسل در نسل وراثت کا حصہ بنتی گئی۔ غریب کی کٹیا کا
تیل لٹتا رہا۔ کئی جوانوں کی جوانیوں کے گلا ب مر جھا گئے۔ سہاگ لٹتے رہے۔
عصمت گری کا بازار گرم رہا۔ اور پھر فاران کی چوٹیوں سے اک نور ہویدا ہوا۔
جس نے خاندانی دشمنیوں کو، نفرتوں کے جلتے الاؤ کو، مذاکرات کی سیج پر
بیٹھ کر صلح حدیبیہ کی گتھی میں اس طرح سلجھا یا کہ تاریخ کو خود پر رشک
آنے لگا۔
جنابِ صدر ! اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں ، قتل کا بدلہ قتل، چوری کا بدلہ
ہاتھ کاٹنا۔ کسی نے آنکھ پھوڑی تو آنکھ پھوڑ دو۔ پتھر کا جواب پتھر سے
دینا ممنو عات تو نہیں ہیں مگر میرے نبی ؐ کا اسوہ بھی نہیں ہیں۔ آخری خطبہ
کے موتع پر فر ماتے ہیں۔کہ تمہارے لئے دوسرے مومن کے مال و جان کو حرام
قرار دیتا ہوں۔ قتل کا بدلہ قتل جو زمانہ جاہلیت میں رواج تھا۔ آج اس کو
ختم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے میں اپنے چچا زاد ابنِ ربیعہ کا خون معاف کر
تا ہوں۔
جناب والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مذہب تو امن لیکر آیا ہے۔ یہ تو صلح کا پیغام لا یا
ہے۔ اجڑے دلوں کو ملانے آیا ہے ۔یہ کائنات کیلئے وجہِ رحمت ہے اگر کوئی قتل
کرے تو صلہ قتل ہی ہے مگر عظیم وہی کہلاتا ہے جو مذاکرات کی میزپر دشمن
کیلئے معافی کا اعلان کرے۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھئے کہ دنیا کا پہلا
تحریری معاہدہ حلف الفضول کے نام سے عہدِ نبویؐ میں ہی لکھا گیا ۔
آج اقوام عالم کے مسائل کا جائزہ لیجئے ۔ سرحدوں کا مسئلہ، آزادی کا
مسئلہ، آزادیءِ نسواں کا مسئلہ، وسائل کا مسئلہ، قبائل کا مسئلہ، دین و
لادینیت کا مسئلہ، نئی ٹیکنا لوجی کے حصول کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ اسلحے
کے سوداگر، رات کے اندھیروں میں ہینڈ گر نیڈ اور بم بیچنے والے ہر مسئلے کو
جنگ سے حل کر نا چاہتے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے آج
کٹے پھٹے ہوئے جسموں پہ دھول کی چادر
اڑا رہی ہے سرِ عام زندگی کا مذاق
بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں کانپتے آنسو
لہومیں تیرتے چہروں کے بد نصیب گلاب
ڈری ڈری ہوئی ماؤں کے بے صدا نوحے
قضا سے مانگ رہے ہیں نفس نفس کا حساب
کیا یہ پھر ہلاکو خاں کی طرح کھو پڑیوں کے مینار بنا نا چاہتے ہیں۔ کیا
پھر بغداد کی وادیاں لہو رنگ ہو نے کو ہیں۔ کیا یہ پھر ہیرو شیما اور نا گا
ساکی کی تاریخ رقم کر نا چاہتے ہیں ۔کیا پھر ورلڈ وار آرڈر کی آڑ میں
35لاکھ معصوموں کا خون ہونے کو ہے۔ کیا کسووو میں اجتماعی قبروں کی دریافت
نے ان عقل کے اندھوں کی آنکھیں نہیں کھولیں۔ کیا یہ جنگ سے مسائل حل کرنے
والے عراق کی تقلید کر نا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بھی روس کی طرح ٹو ٹ کر بکھر
نا چاہتے ہیں۔
ان نا سمجھی کی تفسیروں سے میں یہی کہوں گا کہ یہ آخر کیوں بستیوں کو اجاڑ
نے پر تلے ہو ئے ہیں۔ معصوموں کے لبوں سے مسکراہٹیں چھیننا چاہتے ہیں۔ کب
تک یہ لوگ بہنوں کی ردا ؤں کو نو چتے رہیں گے، کب تک عزتوں کو نیلام کر تے
رہیں گے۔کب تک راقمِ تاریخ کو خون کے آنسو رلاتے رہیں گے۔ الجنت تحت ظلال
السیوف کے نعرے لگانے والے فتح مبین کو یاد کیوں نہیں کرتے۔ فتح خیبر کے
موقع پر آنحضور ؐ علیؓ سے فر ماتے ہیں اگر کوئی ایک شخص بھی بات چیت سے
اسلام لے آئے تو سو سرخ او نٹوں کے ملنے سے زیادہ بہتر ہے۔
یہ کون لوگ ہیں نوکیلے ناخنوں والے
جو بے گنا ہ لہو کا خراج لیتے ہیں
سنوارتے ہیں جو بارود کے دھویں سے نقوش
درند گی کی ہوس میں اجاڑ دیتے ہیں
ضعیف ماؤں کے آنسو ، ہر ایک موڑ پہ آج
امیر شہر سے اپنا حساب مانگتے ہیں۔
جناب والا! جب 40برسوں کی لڑائیاں سمٹتی ہیں تو با ت چیت سے۔ جب کبھی
جنوبی کوریا اور شمالی کوریا ملے ہیں تو بات چیت سے۔ جب کبھی یونان متحد
ہوا تو مذاکرات کی میز پر۔ جب کبھی دلوں میں کینے مٹے تو بات چیت سے ، جب
کبھی محبتیں بڑھیں تو بات چیت سے، جب کبھی پھول مسکرائے تو بات چیت سے، جب
کبھی پاکستان بنا تو جنگ سے نہیں بات چیت سے اور جب کبھی تنازعات کی دیوار
برلن گری تو بات چیت سے۔جزائر آسڑیلیا کے مسائل حل ہوتے ہیں تو بات چیت
سے،کفار اور مسلمانوں میں کوئی معاہدہ ہوا تو بات چیت کے ذریعے۔
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
جنابِ والا! سر درد کے دو حل، دو گولی ڈسپرین یا دو گولی 12بور۔ جواب آپ
بخوبی جانتے ہیں آرام دونوں گولیوں سے آ جاتا ہے۔ آپ کیسا علاج چاہتے ہیں۔
دو گو لی ڈسپرین کا یا دو گولی بارہ بور۔
قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں
قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں