میری رسمیں محبت کی تعلیم دیتی ہیں(قرارداد)
عرب کا تپتا صحرا۔۔۔۔۔۔ چاروں طرف ریت ہی ریت۔۔۔۔۔۔ سخت گرمی کا
موسم۔۔۔۔۔۔ کچھ غلام اک آدمی کو تپتی ریت پر گھسیٹ رہے ہیں۔ اس کے جسم پر
کوڑے بر سا رہے ہیں، اس کو ننگی گا لیاں دے رہے ہیں اور اس’’مجبور‘‘ اور
مقہور آدمی کی زبان پر ایک ہی صدا ہے۔ ’’احد‘‘۔۔۔’’احد‘‘۔۔۔’’احد‘‘۔ اتنے
میں تپتی ریت کی تپش سے جل کر ۔۔۔ ریگزار میں ایک گرم لہر آئی۔ چند بگولے
اٹھے۔۔۔چند ساعتیں رکیں اور فضا میں کچھ لفظ ٹھہر گئے اور میرے کان میں کہا
رسمِ الفت کی قسم جب تک اس جسم میں جان ہے، جب تک ان رگوں میں خون بہتا ہے
،جب تک یہ سانس سلامت ہے، محبت کی قسم یہ رسم باقی رہے گی، میں خدا کو
ایک کہتا رہوں گا محمدؐ کو نبی مانتا رہوں گا۔
صاحبِ صدر!
میری رسمیں محبت کی تعلیم دیتی ہیں ،کیونکہ رسم ایک سلیقہ ہے ،رسم ایک
طریقہ ہے ،رسم ایک قسم ہیں، رسم ایک رشتہ ہے، رسم ایک خوبصورتی ہے، رسم ایک
رابطہ ہے، رسم ایک ایسا رواج ہوا کرتا ہے ، جسے لوگ اپنے معمولات میں شامل
کر دیں۔ غیر مسلموں کیلئے مسلمان کا عقیدہ بھی ایک رسم ہے اور مومن با صفا
کیلئے بت پرستی بھی ایک رسم ہے۔اہلیانِ نوا کیلئے انکی صدا بھی ایک رسم
ہے، مرغانِ چمن کیلئے با دِ صبا بھی ایک رسم ہے۔ عاشقانِ با وفا کیلئے وفا
بھی ایک رسم ہے اور رسمِ جہاں ہو یا رسمِ فغاں ۔ یہ زمین ہو یا کون و مکاں
، ویرانہءِ دشت ہو یا نخلستاں۔ رسم ایک ابر ہے جو ہر کلی اور کانٹے پر بر
ابر برستا ہے۔ تو کہنا پڑتا ہے رسم غزنوی کی قسم!
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بند ہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
صاحبِ صدر!
رسم ایک خوشی کا نام ہے جو ہر گھر میں سورج کی روشنی کیطرح برابر اترتی
ہے۔بیٹا غریب کے ہاں پیدا ہو یا امیر کے ہاں، کہیں صفِ ماتم نہیں بچھتی
بلکہ محبت ہی بانٹی جاتی ہے۔بیٹی چاہے کسی کی بھی ہو، رخصتی کے دن آئیں تو
سبھی کے ننھیال اُس معصوم روح کی رخصتی کیلئے سامان بہم پہنچاتے ہیں۔اور جب
کسی کی خمیدہ کمر شادی کے اخراجات بر داشت کرنے کی متحمل نہ ہو، تو
نیوندرے جیسی خوبصورت رسم اس کیلئے خوشیاں بکھیرتی ہے۔اور جب اپنے گھر کو
خود پر حرام کر کے رانجھا تخت ہزارے کو چھوڑ تا ہے تو اس کی بانسری یہی دھن
الاپتی ہے۔
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھن ہوئی
ہر کوئی آکھے رانجھن مینوں ہیر نہ آکھے کوئی
اورجب کسی لیلیٰ کی چاہ میں مجنوں صحرائے نجد میں خاک چھا نتا ہے اور ہر
قدم پر لیلیٰ لیلیٰ پکارتا ہے تو دشت کا ذرہ ذرہ چلا تا ہے کہ رسمِ الفت کی
قسم
جن کی آنکھوں میں شبِ گنج اڑی ہوتی ہے
ان کے پاؤں میں بیڑی محبت کی پڑی ہو تی ہے
اور جب چناب کا پانی اپنی بپھری لہروں کیساتھ ہر ذی روح کو خس و خاشاک کی
طرح بہانے کا عزم کرتا ہے تو رسمِ الفت ایک کچے گھڑے پر تیر کر کہتی ہے۔
طوفاں ہے تو کیا غم مجھے آواز تو دیجئے
کیا بھول گئے آپ میرے کچے گھڑے وہ
صاحبِ صدر!
میری رسمیں تو بجھتی سانسوں کیلئے زندگی کا پیغام ہیں۔ میری رسمیں تو محبت
کا دوام ہیں۔ میری رسمیں تاریک راہوں پہ روشنی کا نام ہیں میری رسمیں
دعاہیں میری رسمیں سلام ہیں۔میری رسمیں حسن ہیں، میری رسمیں حسین ہیں۔ میری
رسمیں امن ہیں میری رسمیں امین ہیں، میری رسمیں حقیقت ہیں میری رسمیں یقین
ہیں، میری رسمیں شاہد ہیں میری رسمیں شاہین ہیں۔
جنابِ صدر!
رسمیں محبت کی داعی ہیں۔ یہ سلسلہءِ روزو شب گواہ ہیں کہ گر کبھی محبت کو
قر بانی کی ضرورت پڑی ، تو شوریدہ سروں نے رسم دلبری نبھائی ،اور اپنے لہو
سے تاریخ سجائی ۔کیونکہ جب ایک بیٹی کی پکار پر ایک بن قاسم، حجاج بن یوسف
کی صورت اپنے آباء کی رسموں کی پاسداری کرتا ہے تو میرا دل یہ کہتا ہے کہ
رسمیں محبت بانٹتی ہیں۔اور جب سلطان فتح ٹیپو
بر صغیر کے مظلوم عوام کی مظلمو میت کا بدلہ چکا نے کا عزم کرتا ہے، تو
میرے دل سے صدا آتی ہے، رسمیں محبتیں بانٹتیں ہیں۔ اور جب میرا قائد رسمِ
چاہ اور وفا نبھا تے ہوئے بستر مرگ پہ بھی کا م کام اور بس کام کا پیغام
دیتا ہے تو میرے دل سے صدا آتی ہے میری رسمیں محبت بانٹتی ہیں۔
صاحبِ صدر!
میں کسی پہ انگلی نہیں اٹھاؤں ہو گا اور نہ ہی کسی کیلئے نفرت کا پیغام
دوں گا کیونکہ میری رسمِ محبت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ اور آج
دیکھنا یہ ہے کہ اس با طل و حق کے رن میں
رات مرتی ہے کہ زنجیرِ سحر ہو تی ہے
آخری فتح میری ہے میرا ایمان ہے یہ
جس طرح ڈوبتے سورج کو خبر ہوتی ہے
عرب کا تپتا صحرا۔۔۔۔۔۔ چاروں طرف ریت ہی ریت۔۔۔۔۔۔ سخت گرمی کا
موسم۔۔۔۔۔۔ کچھ غلام اک آدمی کو تپتی ریت پر گھسیٹ رہے ہیں۔ اس کے جسم پر
کوڑے بر سا رہے ہیں، اس کو ننگی گا لیاں دے رہے ہیں اور اس’’مجبور‘‘ اور
مقہور آدمی کی زبان پر ایک ہی صدا ہے۔ ’’احد‘‘۔۔۔’’احد‘‘۔۔۔’’احد‘‘۔ اتنے
میں تپتی ریت کی تپش سے جل کر ۔۔۔ ریگزار میں ایک گرم لہر آئی۔ چند بگولے
اٹھے۔۔۔چند ساعتیں رکیں اور فضا میں کچھ لفظ ٹھہر گئے اور میرے کان میں کہا
رسمِ الفت کی قسم جب تک اس جسم میں جان ہے، جب تک ان رگوں میں خون بہتا ہے
،جب تک یہ سانس سلامت ہے، محبت کی قسم یہ رسم باقی رہے گی، میں خدا کو
ایک کہتا رہوں گا محمدؐ کو نبی مانتا رہوں گا۔
صاحبِ صدر!
میری رسمیں محبت کی تعلیم دیتی ہیں ،کیونکہ رسم ایک سلیقہ ہے ،رسم ایک
طریقہ ہے ،رسم ایک قسم ہیں، رسم ایک رشتہ ہے، رسم ایک خوبصورتی ہے، رسم ایک
رابطہ ہے، رسم ایک ایسا رواج ہوا کرتا ہے ، جسے لوگ اپنے معمولات میں شامل
کر دیں۔ غیر مسلموں کیلئے مسلمان کا عقیدہ بھی ایک رسم ہے اور مومن با صفا
کیلئے بت پرستی بھی ایک رسم ہے۔اہلیانِ نوا کیلئے انکی صدا بھی ایک رسم
ہے، مرغانِ چمن کیلئے با دِ صبا بھی ایک رسم ہے۔ عاشقانِ با وفا کیلئے وفا
بھی ایک رسم ہے اور رسمِ جہاں ہو یا رسمِ فغاں ۔ یہ زمین ہو یا کون و مکاں
، ویرانہءِ دشت ہو یا نخلستاں۔ رسم ایک ابر ہے جو ہر کلی اور کانٹے پر بر
ابر برستا ہے۔ تو کہنا پڑتا ہے رسم غزنوی کی قسم!
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بند ہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
صاحبِ صدر!
رسم ایک خوشی کا نام ہے جو ہر گھر میں سورج کی روشنی کیطرح برابر اترتی
ہے۔بیٹا غریب کے ہاں پیدا ہو یا امیر کے ہاں، کہیں صفِ ماتم نہیں بچھتی
بلکہ محبت ہی بانٹی جاتی ہے۔بیٹی چاہے کسی کی بھی ہو، رخصتی کے دن آئیں تو
سبھی کے ننھیال اُس معصوم روح کی رخصتی کیلئے سامان بہم پہنچاتے ہیں۔اور جب
کسی کی خمیدہ کمر شادی کے اخراجات بر داشت کرنے کی متحمل نہ ہو، تو
نیوندرے جیسی خوبصورت رسم اس کیلئے خوشیاں بکھیرتی ہے۔اور جب اپنے گھر کو
خود پر حرام کر کے رانجھا تخت ہزارے کو چھوڑ تا ہے تو اس کی بانسری یہی دھن
الاپتی ہے۔
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھن ہوئی
ہر کوئی آکھے رانجھن مینوں ہیر نہ آکھے کوئی
اورجب کسی لیلیٰ کی چاہ میں مجنوں صحرائے نجد میں خاک چھا نتا ہے اور ہر
قدم پر لیلیٰ لیلیٰ پکارتا ہے تو دشت کا ذرہ ذرہ چلا تا ہے کہ رسمِ الفت کی
قسم
جن کی آنکھوں میں شبِ گنج اڑی ہوتی ہے
ان کے پاؤں میں بیڑی محبت کی پڑی ہو تی ہے
اور جب چناب کا پانی اپنی بپھری لہروں کیساتھ ہر ذی روح کو خس و خاشاک کی
طرح بہانے کا عزم کرتا ہے تو رسمِ الفت ایک کچے گھڑے پر تیر کر کہتی ہے۔
طوفاں ہے تو کیا غم مجھے آواز تو دیجئے
کیا بھول گئے آپ میرے کچے گھڑے وہ
صاحبِ صدر!
میری رسمیں تو بجھتی سانسوں کیلئے زندگی کا پیغام ہیں۔ میری رسمیں تو محبت
کا دوام ہیں۔ میری رسمیں تاریک راہوں پہ روشنی کا نام ہیں میری رسمیں
دعاہیں میری رسمیں سلام ہیں۔میری رسمیں حسن ہیں، میری رسمیں حسین ہیں۔ میری
رسمیں امن ہیں میری رسمیں امین ہیں، میری رسمیں حقیقت ہیں میری رسمیں یقین
ہیں، میری رسمیں شاہد ہیں میری رسمیں شاہین ہیں۔
جنابِ صدر!
رسمیں محبت کی داعی ہیں۔ یہ سلسلہءِ روزو شب گواہ ہیں کہ گر کبھی محبت کو
قر بانی کی ضرورت پڑی ، تو شوریدہ سروں نے رسم دلبری نبھائی ،اور اپنے لہو
سے تاریخ سجائی ۔کیونکہ جب ایک بیٹی کی پکار پر ایک بن قاسم، حجاج بن یوسف
کی صورت اپنے آباء کی رسموں کی پاسداری کرتا ہے تو میرا دل یہ کہتا ہے کہ
رسمیں محبت بانٹتی ہیں۔اور جب سلطان فتح ٹیپو
بر صغیر کے مظلوم عوام کی مظلمو میت کا بدلہ چکا نے کا عزم کرتا ہے، تو
میرے دل سے صدا آتی ہے، رسمیں محبتیں بانٹتیں ہیں۔ اور جب میرا قائد رسمِ
چاہ اور وفا نبھا تے ہوئے بستر مرگ پہ بھی کا م کام اور بس کام کا پیغام
دیتا ہے تو میرے دل سے صدا آتی ہے میری رسمیں محبت بانٹتی ہیں۔
صاحبِ صدر!
میں کسی پہ انگلی نہیں اٹھاؤں ہو گا اور نہ ہی کسی کیلئے نفرت کا پیغام
دوں گا کیونکہ میری رسمِ محبت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ اور آج
دیکھنا یہ ہے کہ اس با طل و حق کے رن میں
رات مرتی ہے کہ زنجیرِ سحر ہو تی ہے
آخری فتح میری ہے میرا ایمان ہے یہ
جس طرح ڈوبتے سورج کو خبر ہوتی ہے