چل لے چلوں تجھے پراگ کی گلیوں میں

0
1498

ابھی پراگ کے ہوائی اڈے پر موجود ہوں، یہاں سے میری واپس کوپن ہیگن کی فلائیٹ ہے لیکن پراگ کی لذت ابھی تک آنکھوں کو مسحور کئے جا رہی ہے، واہ کیا ملک ہے واہ کیا خوبصورت لوگ ہیں، واہ کیا حیرت انگیز عمارتیں ہیں اور سب سے بڑھ کر چارلس برج ۔۔۔۔اوہ اس پل پر جیسے دل اٹک گیا ہے، جیسے کسی منظر سے انسان کو محبت ہو جائے ایسے ہی چارلس پل سے پراگ کے قلعہ کو دیکھئے تو دل پر ایک سنسنی سی طاری ہو جاتی ہے جیسے کبڑا عاشق مغرور حسینہ کے روبرو حاظر ہو۔۔۔کل ایک گھنٹہ اس پل پر کھڑا  آنے جانے والوں کی کیفیتات پڑھتا رہا، میرا حال ہی کچھ ایسا نہ تھا، اس پل کے جادو سے ہر آنکھ پاگل تھی، پر درجنوں قومیتوں کے سینکڑوں لوگ اس حسن سے آنکھیں خیرہ کرنے آئے تھے جسے لوگ پراگ کہتے ہیں، چیک ری پبلک کا دارلخلافہ، وہی چیک ری پبلک جو کبھی چیکو سلواکیہ ہوا کرتا تھا۔ ھا

دوہزار چودہ کے اعداد و شمار کی سالانہ اوسط کے مطابق سالانہ چونسٹھ لاکھ سیاح پراگ کا رخ کرتے ہیں، اگر ان کو یومیہ کے حساب سے سوچا جائے تو سترہ ہزار سیاح روزانہ کے قریب اوسط بنتی ہے۔ چلئے ہم بھی جانتے ہیں کہ پراگ میں ایسا کیا ہے جو اتنے لوگ اس کو دیکھنے چلے آتے ہیں، شاید یہ کہ پراگ کو تاریخی اعتبار سے محفوظ رہنے والے شہروں میں سے ایک شہر سمجھا جاتا ہے، شاید اس لئے کہ وسطی یورپ میں ہونے کی بنا پر یہ مشرقی اور مغربی یورپ میں ایک پل کا کردارادا کرتا ہے، شاید اس لئے کہ یہاں یورپ کی بہت سے ملکوں کے مقابل مہنگائی کم ہے، شاید اس لئے کہ پراگ کی جاگتی راتوں میں گناہوں کی چمک اہل دنیا کو اپنی طرف مبذول کرتی ہے، جہاں بئیر کی بوتل پینے کے پانی سے سستی ہے۔ یا شاید روسی ریاستوں کے خوبصورت باشندوں کے سے خط و خال لئے چیک حسنائیں۔۔۔۔۔آپ جس چیز کے بھی رسیا ہوں پراگ کے دامن میں سب کے لئے جگہ ہے۔

پراگ میں ذرائع سفر

پراگ میں میرا قیام تین دنوں پر محیط تھا، میرے میزبان اور گائیڈ پاکستانی دوست اور سکالر ڈاکٹر منظور ساہی تھے، انہوں نے تین روزہ سفری پیکج لینے کی تجویز دی، یعنی تین دنوں کے لئے شہر کی ہر پبلک ٹرانسپورٹ جیسے بس، ٹرام، میٹرو سب پر سفر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے سفری پاس یورپ کے اکثر شہروں میں دستیاب ہوتے ہیں، جس میں ایک دن، دو دن یا تین دن کے لئے ساری پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔۔ بار بار ٹکٹ خریدنے کے جھنجھٹ سے بہت بہتر ہوتا ہے کہ آدمی ایک ہی دفعہ میں ایسا پاس لے لے۔ پراگ میں عوامی ذرائع سفر بہت اچھے ہیں اور سستے بھی، یہ تین دن کا پاس مجھے پاکستانی دوہزار روپے سے بھی کم میں ملا، اور اس کا جتنا فائدہ کوئی پاکستانی اٹھا سکتا تھا وہ میں نے اٹھایا۔ آخری دن تو میں نے چار پانچ ٹرام لائنوں کی خوب سیر کی، ٹرام سے اترے اور بس پر اور بس سے اتر کر میٹرو پر۔۔۔۔پراگ کی پبلک ٹرانسپورٹ چوبیس گھنٹے چلتی ہے، بس رات کے وقت اوقات کار میں کچھ تبدیلی کر دی جاتی ہے۔

چارلس برج

اگر آپ فلمیں دیکھنے کے شوقین ہیں تو کسی نہ کسی فلم میں یہ پل آپ نے دیکھ رکھا ہو گا، اس پل کے آغاز کی کہانی بھی فلمی سی ہے چارلس چہارم علم الاعداد میں دل چسپی لیتا تھا اس لئے اس کا آغاز نو جولائی 1357 کو ٹھیک پانچ بج کر اکتیس منٹ پر کیا گیا۔ اگر اس تاریخ کو لکھا جائے تو

1357،9،7 531 بنتا ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ ایسا کرنے سے پل کسی تباہی کا شکار نہ ہوگا۔

یہ پل دوہزار سنیتیس فٹ لمبا اور قریبا اکتیس فٹ چوڑا ہے۔ اور یہ اٹھارہ سو اکتالیس تک دریائے والٹوا کو پار کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔ اسی وجہ سے یہ پل مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان ایک اہم تجارتی راستے کا کردار ادا کرتا رہا۔ اس پل پر درجنوں فن کار پنسل کی مدد سے لوگوں کی لائیو تصاویر بناتے ملتے ہیں، فری لانسر میوزک کے متوالے بھی دو تین جگہ ہر مستقل ڈیرا ڈالے رکھتے ہیں اور یوں گذرنے والوں کو مستقل لائیو موسیقی سننے کو ملتی ہے، جو اس تاریخی پل اور دلکش نظارے میں مزید دلفریبی پیدا کرتی ہے، اس لئے ان تین دنوں کے دوران جتنی بار بھی اس پل پر سے گذرا لوگ ہجوم در ہجوم اس پل پر کھڑے ملے۔ اسی پل پر ہاتھوں سے بنی ہوئی جیولری بیچنے والوں کا بھی راج ہے۔ لیکن یہاں جتنے بھی سٹال لگائے گئے تھے خاصے انتظام سے لگائے گئے تھے، تختہ سیاہ کو کھڑے کرنے والے لکڑی کے سٹینڈ کی مانند سٹینڈ پو بہت تھوڑی سی جگہ میں لوگ اپنی جیولری کی نمائش کر رہے تھے۔ اپنی محبت کا دوام بخشنے نئے شادی شدہ جوڑے عروسی لباسوں میں گھومتے ہوئے بھی نظر آئے۔ یہ پل کیا ہے بس ایک دنیا اباد ہے، جس میں سارے پراگ کی خوبصورتی اور حسن کا نچوڑ ہے۔ ایسا سرور کو لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جا تا ہے۔ پل اور گردو نواح کے خوبصورت نظاروں ایک اور رنگ مین دیکھنے کے لئے پل کے کونوں پر برجیوں پر چڑھا جا سکتا ہے۔ پل کی برجیوں پر چڑھنے کی فیس لگ بھگ سات آٹھ سو روپے ہو گی۔ گو کہ اوپر کھڑے ہونے کی جگہ بہت مناسب نہیں مگر پھر بھی اگر آپ کو بھی میری طرح اس پل سے محبت محسوس ہو تو ان برجیوں پر ضرور چڑھئے گا، پل کی خوبصورتی کا یہ رنگ آپ کے ذوق نظر کی بھر پور تسکین کرے گا۔ میں کل شام اس پل سے لوٹ ایا ہو ایک وعدہ کر کے کہ پھر آوں گا۔۔۔جی ہاں کچھ ایسا ہے پراگ کے اس پل پر ۔۔۔۔۔

پرانے ٹاون والی طرف کی برجی کے ساتھ چارلس چار کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے، جو لوگوں کو اور کچھ دے نہ دے ایک سیلفی کھینجنے کی طرف ضرور مائل کرتا ہے۔

اولڈ ٹاون سکوائر اور آسٹرانومیکل کلاک

ویسے تو پراگ سارے کا سارا خوبصورت ہے مگر اس کا اولڈ ٹاون پرانی دوستی کی طرح ہلکا ہلکا سرور دیتا رہتا ہے، زیادہ باتیں نہیں کرتا بس ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے،  wenceslas square سے چارلس برج کی طرف جائیے تو اولڈ ٹاون سکوائر کے مینارے اپنی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں، اگر آپ اس کے اسٹرانومیکل کلاک سے آشنا نہیں تو ایک منٹ ٹھہرئیے سامنے ایک کلیسا کی عمارت کے نوکدار مینارے آپ کو کچھ اور دیکھنے نہیں دیں گے، اس چرچ کا نام چھون چرچ ہے، جسے چودہودیں صدی عیسوی میں بنایا گیا ہے۔ اس سکوائر کے تین کونوں  پر تین خوبصورت عمارتیں ہیں جن میں مجھے سب سے دلکش عمارت یہی لگی، پراگ قیام  کے سبھی دنوں میں اس سکوائر پر جانے کا اتفاق ہوا، سبھی روز اس سکوائر پر لوگوں کا بہت زیادہ رش تھا۔ بہت سے لوگ ہر گھنٹے کے مکمل ہونے پر آسٹرانومیکل کلاک کو دیکھنے کو جمع ہوتے ، جہاں گھنٹہ مکمل ہونے پر کھڑکیاں کھلتیں ہیں اور کچھ مجسمے حرکت میں آتے ہیں ، یہ دنیا کا تیسرا پرانا آسٹرانومیکل کلاک ہے جو ابھی تک قابل عمل بھی ہے۔

پراگ کا قلعہ

دوسرے دن کے پروگراموں میں پراگ کے قلعہ جانا طے تھا مگر بارش تھی کہ گھر سے باہر نکلنے ہی نہ دے رہی تھین یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یورپ میں آپ بارش کے ڈر سے دبکے بیٹھے رہیں، سو ہم اس رم جھم میں ہی چل پڑے، پہلے پہل تو موسم ٹھیک رہا لیکن جونہی قلعہ کے باغیچے تک پہینچے رم جھم نے رفتار پکڑ لی۔یہ باغیچہ بھی کوئی عام باغیچہ نہ تھا بلکہ شاہی باغیچہ تھا۔ اس میں بنی ہوئی کیاریاں اور ترتیب سے لگے ہوئے پھول اس کے خاص ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ اس باغیچے کے چند درختوں تلے رک کر ہم نے بارش سے بچاو بھی کیا، لیکن جب یہ دیکھا کہ بارش تو رکنے کی نہیں تو اپنا سفر جاری رکھا۔ قلعہ کی سیر کو آنے والوں کی تعداد سے لگ رہا تھا کہ لوگوں کو بارش کی کچھ پرواہ نہیں۔ لیکن قلعہ کی سامنے والی برجیوں کے سامنے تصویر کھنچنا بہت مشکل ہو رہا تھا کیونکہ کیمرے کا رخ اوپر کی سمت کرنے پر بارش تصاویر کے راستے کی رکاوٹ تھی۔ یہ قلعہ دنیا کے سب سے بڑوں قلعوں میں سے ایک ہے۔ اسی قلعہ کے اندر سینٹ ویٹوز کا چرچ ہے، جس کے اندر بہت سے بادشاہوں کے مقبرے ہیں۔ اسی چرچ کے پیچھے کی جانب ایک اور چرچ ہے جس کا نام سینٹ جارج بیسلیا ہے، جسے پراگ کا پرانا ترین اور محفوظ حالت کا چرچ سمجھا جاتا ہے۔ اس چرچ کی بنیاد 920 عیسوی میں رکھی گئی۔ اب اس کو بوہیمین آرٹ کی گیلری کی طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس چرچ کی ساتھ والی گلی سے گذر کر ہم کچھ راستہ ڈھلوان کی طرف اتر آئے، یہاں سے سارے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ بارش قدرے تھم چکی تھی، اس لئے ہم نے یہاں آکر شہر کی کچھ تصاویر بنائیں اور قلعہ کو شہر سے ملاتی ہوئی سیڑھیاں پر چلے آئے۔

وینسکلس سکوائر

کاروباری اعتبار سے اس سکوائر کو شہر کا دل کہا جا سکتا ہے، یہاں بے شمار ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کے دفاتر ہیں، اور سب سے بڑھ کر پراگ کی راتوں کی ساری رونق اسی سکوائر سے ہے۔ اس سکوائر کے کونے پر ایک بڑا میوزیم ہے مگر وہ تعمیراتی کاموں کی بنا پر بند ہوا ہوا تھا۔ یہاں بے شمار نائٹ کلب، اور بار ہیں، رات دس بجے کے بعد جب عام دکانیں بند ہو جاتی ہیں تو پراگ کی رات کا آغاز ہوتا ہے۔ رات کو رنگین بنانے والا ہر سامان یہاں دستیاب ہے۔ یورپ کے بہت سے شہروں سے سستی عیاشی یہاں میسر ہے۔ طوائفوں کے دلال چھابڑی فروشوں کی طرح اپنے مال کی خوبیوں کی آوازیں دیتے سنائی دیتے ہیں۔  مختلف کلبوں کے سیل مینز بھی اپنے انداز میں اپنے اپنے کلب کے لئے لوگوں کو گھیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

بوہیمین کرسٹل

پراگ کی بنی ہوئی کرسٹل کی اشئیا بہت شہرت رکھتی ہیں، اس لئے اولڈ ٹاون سکوائر میں جا بجا کرسٹل سے بنی ہوئی اشئیا کی دکانیں دیکھنے کو ملتی ہیں، اس کرسٹل کو اس علاقے کی نسبت سے بوہمین کرسٹل کہا جاتا ہے۔ اس کرسٹل کی مصنوعات والی کچھ دکانیں دیکھنے کا اتفاق ہوا، ہاتھ سے بنے ہوئے کرسٹل والے کھانے کے برتن، کپ، سجاوٹی اشئیا بہت خوبصورتی اور نفاست کے ساتھ الماریوں میں سجائی گئی تھیں، کرسٹل سے بنی ہوئی جیولری بھی جا بجا نظر آ رہی تھی۔ دکاندار خوشی دل سے سیاحوں کا استقبال کر رہے تھے اور ہم ایسے نظر بازوں کو تصویر کھینچنے کی کلی چھٹی دے رہے تھے۔

ٹریلڈو اور ایک آلو والی چپس اور فرائیڈ چیز

پراگ کے بارے کچھ لوگوں نے لکھا کہ یہاں رول والی پیسٹری ٹریڈلنک ضرور کھانی چاہیے سو ہم نے کھا دیکھی، پاکستان میں جیسے کریم رول بنائے جاتے ہیں، بالکل اس سے ملتی جلتی چیز کو ٹریڈلو کہا جا تا ہے، فرق بس اتنا ہے کہ یہاں اس کو گرم گرم بیچا اور کھایا جاتا ہے، اور تھوڑا نرم رکھا جاتا ہے، اس سے ملتی جلتی پیسٹریاں یا رول سکینڈے نیویا میں عام ملتے ہیں، جن کا ذائقہ ننانوے فیصد ایک سا ہوتا ہے۔ بس یہ ہے کہ یہاں گرم گرم دکانوں پر تیار کیے جاتے ہیں اور سوغات سمجھ کر کھائے جاتے ہیں، دوسری چیز جو میں نے ایک ویڈیو میں دیکھی تھی کہ ایک آلو کو اس انداز میں کاٹا جاتا ہے کہ ایک آلو ایک لمبا سا آلو کا ٹکڑا بن جاتا ہے جو ایک لکڑی کی پتلی سٹک کے گرد لپٹا ہوتا ہے۔ اور اس کو اسی سٹک کے ساتھ فرائی کر لیا جاتا ہے۔ آلو کی چپس تو آپ نے بھی بار ہا کھائی ہو گی یہ بھی ویسی ہی ہے بس ذرا بنانے اور پیش کرنے کا انداز جدا تھا۔ جس دکان سے ہم نے یہ آلو لئے لگتا تھا کہ اس نے فرائی کرنے والا آئل کافی دیر سے بدلا نہ تھا کیونکہ اس میں کسی ماٹھے ہوٹل کے تیل کا ذائقہ محسوس کیا جا سکتا تھا۔ پراگ کے کھانوں میں اور جس چیز کو چکھا جا سکتا تھا اس میں فرائیڈ چیز کی بھی شہرت سنی تھی، میرے ذہن کے کسی گوشے میں پراگ کی یہ سوغات رہ گئی تھی جو میکڈونلڈ پر فش برگر لینے گیا تو وہاں اس سائیڈ آڈر میں فرائیڈ چیز کا بھی تذکرہ پایا تو آرڈر کر دی گئی، اگر آپ چیز کے شوقین ہیں تو پراگ کے سفر میں اس فرائیڈ چیز کو بھی چکھا جا سکتا ہے۔

پراگ میں منی ایکسچینجر

میں نے جتنے بھی سفر کئے ہیں ان میں ابھی تک سب سے زیادہ منی ایکسچنجر پراگ ہی میں دیکھے ہیں، جگہ جگہ ایسی دکانیں ہیں جو آپ کی کرنسی کو مقامی کرنسی چیک کرون میں تبدیل کرتی ہیں، ایک یورو کے چھبیس، ستائیں چیک کرونے ملتے ہیں۔ ان دکانوں پر ریٹ کاکافی حد تک فرق تھا، ویسے تو یورو بھی قبول کر لئے جاتے ہیں لیکن دکاندا ر وہاں بھی تبدیلی کا ریٹ بہت کم لگاتے ہیں، کچھ جگہوں پر یورو کے بدلے بائیس چیک کرونے دئے جا رہے تھے۔ اس لئے جب کبھی آپ پراگ تشریف لے جائیں تو ہوشیار باش۔

فرانز کافکا سے ایک ملاقات

ہر وہ شخص جو خوبصورتی کو دیکھ سکتا ہے کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، ایسی خوبصورت باتوں کے خالق فرانز کافکا کی جنم بھومی بھی پراگ ہی میں ہے۔ پراگ کے سٹی سنٹر کے پاس ہی کافکا کے سر کا ایک گھومتا ہوا مجسمہ لگایا گیا ہے۔ اس کے مجسمہ سٹیل قسم کے دھاتی میٹریل کے بہت سے گھومنے والے ٹکڑوں سے بنایا گیا ، جو وقت کے کسی خاص حصے میں کافکا کی تصویر بناتے ہیں۔ کافکا کی سوچ کو ایسا خراج تحسین کوئی صاحب ذوق ہی دے سکتا ہے۔

دریائے ولٹاوا کے کنارے کے ساتھ ساتھ ایک واک

جہاز پر سے پراگ کا نظارہ دیکھیں تو بل کھاتا دریائے ولٹاوا اپنے ہونے کا بھر پور اظہار کرتا ہے۔ آخری دن میں نے  Vyšehradوشوہر کے قلعہ اور اس دریا کے کنارے سیر کا پروگرام رکھا۔

یہ قلعہ بھی پراگ کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کے اندر بہت سی مشہور شخصیات کی قبریں ہیں، ایک دو قدیم گرجا گھر ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پراگ شہر کی ابتدا ہی یہیں سے ہوئی تھی۔ قلعہ کے اندر موجود ایک پرانے چرچ کے رنگ دار دروزے مجھے بہت خوبصورت لگے ، اس قلعہ کے درو دیوار اور قبرستان دیکھنے کے بعد میں دریا کی سمت سیڑھیاں اتر آیا، وہاں سے ایک انجانی سمت کو جانے والی ٹرام میں بیٹھ گیا، پھر ایک انجان سٹاپ پر اتر کر ایک اور انجان سمت کی ٹرام میں بیٹھا، ایک جگہ جانی پہچانی سے لگی تو وہاں اتر گیا، یہ چارلس برج کا ایک کونا تھا، وہاں سے دریا کے ساتھ ساتھ سفر کا آغاز کیا، کچھ ہی آگے کنسرٹ ہال کی خوبصورت عمارت دیکھنے کو ملی، وہاں سے دریا کی ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پراگ کی سیر کرووانے والی کشتیوں کا ٹھکانا ہے۔ وہیں سے سامنے دیکھیں تو پہاڑی پر ایک گنبد نما عمارت کا نظارہ ہوتا ہے۔ بس ایسے ہی گھومتے گھومتے میں پھر چارلس برج پر آنکلا۔

پراگ کی سیر کرنے والے آپ کو درجنوں مقامات دیکھنے کی ترغیب دیں گے، تین دنوں میں اسی کلومیٹر پیدل اور پراگ گھومنے کے بعد میرا مشورہ یہی ہے کہ بس پراگ کی گلیوں میں گم ہو جائیں ہر گلی خوبصورت ہے اور ہر راستہ شہر کے دل کی طرف آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ پراگ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.