سنا ہے ایک اور سیاستدان نے ہمارے شہر میں سیاست کی دکان کھول لی
ہے۔۔۔۔۔۔اعلان یہ ہے کہ جس ضرورت مند کو آٹا، چینی، گھی، دال جیسی اشیاء
خوردونوش کی ضرورت ہو، وہ ان کے ڈیرے سے مفت لے جا سکتا ہے۔۔۔۔ایسی ہی بات
اس سے پہلے ہمارے شہر چیچہ وطنی کے موجودہ منتخب امیدوار سے منسوب
ہے۔۔گذشتہ الیکشن کے موسم میں تین کروڑ کا سامان غریب لوگوں میں بٹا تھا
۔۔۔۔اب بانٹنے والے نئے ہیں تو جانے کیا کیا بٹے گا اور لوگ اپنی مجبوریوں
کا سودا کر ڈالیں گے۔۔۔۔وہ جن کو گوشت صرف عید پر نصیب ہوتا ہو، جن کی
روزانہ کی کمائی سے روزانہ کا خرچ برابر نہ ہوتا ہو۔۔۔جو اس کمائی کے لئے
سارا سارا دن گدھوں اور گھوڑوں سے بڑھ کر کام کرتے ہوں ، گرم سرد مو سم
میں۔۔۔موسم کی تلخیوں کے ساتھ ساتھ آقاوں کا گالیاں، جھڑکیاں جن کا مقدر
بنتی ہوں اور چار پانچ سالوں میں ایک دن ایسا آ جائے جب فرعونِ وقت اس کے
دروازے پر ستک دے ، اس کے معصوم بچے کے گال کو سہلائے، اس کو سینے سے لگائے
اور تو اور مسکرا کر اس کی جھولی میں اس کے ہفتہ بھر کی کمائی ڈال دے
اور ساتھ میں یہ بھی کہہ جائے کہ الیکشن تک سب راشن پانی اب میرے
ذمے۔۔۔۔۔تو کوئی پاگل ہی ہو گا جو ان ہاتھوں کا بوسہ لیکر ہاتھ اپنے سارے
بدن پر نہ پھیرے۔۔۔۔۔
پردیس میں بیٹھے بہت سے احباب سمجھتے ہیں کہ اب ملک میں حالات اتنے دگر گوں
ہیں کہ مزید خرابی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔۔۔اور دیکھا جائے تو وہ درست
کہتے ہیں۔۔۔۔۔بجلی بایئس گھنٹے غائب رہنے لگی ہے۔۔۔۔گیس ہفتہ میں تین دن
چھٹی مناتی ہے۔۔۔۔کاروبار کوئی بھی مندے میں جا رہا ہے۔۔۔۔انڈسڑی بند ہو
چلی۔۔۔۔کھیتیاں نہری پانی کو ترستی ہیں۔۔۔۔امن امان کی صورت حال بدترین۔
میڈیا کا بڑھتا ہوا شور جو آنے والی تبدیلیوں کے خواب بیچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔
اکثر دوست یہ بھی سمجھتے ہیں اب ہمارے عوام شعور کے اس درجہ پر ہیں جہاں وہ
درست اور غلط کی پہچان رکھتے ہیں۔۔۔۔مگر میں نہایت افسوس کے ساتھ اپنے
سبھی دوستوں کو خبردار کرتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے
والی۔۔۔۔۔
یہاں محرومیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ کوئی دکاندار ہی ان کا مول لگا سکتا ہے،
وہ دکاندار جن کی ساکھ اچھی ہے لوگوں کو ادھار کے لارے پر بھی اپنے ساتھ
لگائے ہوئے ہیں، اور جن کی یہ پہلی باری ہے ان کو تو یہ سودہ نقد کرنا
ہوگا۔۔۔اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے۔۔۔۔۔۔۔راشن، روٹی، نوکری نہیں تو
وعدہ۔۔۔۔۔اپنے ذاتی نوعیت کی اتنی مجبوریاں ہیں کہ گلی اور محلے کے متعلق
کون سوچے گا۔۔۔۔اور ملک اس کے لئے سوچنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔وہ کام ہم
نے ان سرمایہ کاروں پر چھوڑ رکھاہے جو ہماری مجبوریوں کا سودہ کرتے
ہیں۔۔۔۔۔نہ انہوں نے گھاٹے کا سودہ پہلے کیا تھا نہ اب کریں گے۔۔۔وہ ملک
امریکہ کو بیچیں یا قومی مفادات کا سودہ کریں ، ہمارے زبانیں تو و ہ پہلے
ہی کاٹ کر لے گئے تھے، ہمارے ہاتھ اور بازو تو کب کے بک چکے۔۔۔۔ہماری
ذاتی محرومیوں کے مرہم ہماری غلامی کی قیمت ٹھہرے۔۔۔۔
چند سر پھرے نوجوان انقلاب کے چراغ لئے گلی گلی گھومتے ہیں۔۔۔۔کہ اٹھو
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔۔اٹھو اپنے ضمیر کی آواز
سنو۔۔۔۔۔اور وہ جو متاعِ جان بیچ چکے اپنے گھروں میں دبکے پڑے ہیں وہ جانتے
ہیں سچ کیا ہے مگر ان کی مجبوریاں ان کے پاوں کی زنجیر ٹھہریں۔۔۔۔اور
خواب بیچنے والے کوئی خریدار نہ پا کر کہاں جائیں گے۔۔۔۔کسی دکان کی دیوار
تلے دم لینے کو انہیں رکنا ہوگا۔۔۔۔۔اپنی نارسائیوں کے بوجھ کو ذرا کم
کرنا ہو گا۔۔۔۔اور ہو گا پھر وہی ۔۔۔۔پھر کوئی نیا پرانا دکاندار مول تول
میں تیزی اور مندی کی ایسی تصویر کشی کرے گا کہ نہ بکنے اور نہ جھکنے کا
دعوی کرنے والے اپنی بقا کی خاطر ہزاروں کی انا کا سودہ بھی ساتھ ہی کر لیں
گے۔۔۔۔۔۔
سچ کا ساتھ کون دے گا۔۔۔۔سب کو جھوٹ اور جھوٹوں کے سہارے کی تلاش
ہے۔۔۔۔۔۔سچ تو پھر سچے کیساتھ ہو گا۔۔۔۔ان کی چودہراہٹ کیونکر چلے گی، ان
کے جھوٹے پولیس پرچے، ان کے نام کی پرچیاں، ان کی محبت بھری غلیظ گالیاں
راشی افسروں کے سوا کون سنتا ہے۔۔۔۔یہ سب گٹھ جوڑ ہے، سب طاقتور کمزور کے
خلاف اکھٹے ہیں۔ ۔۔۔یہاں کسی اچھے آدمی کے آنے کی امید نہیں۔۔۔۔۔اس سسٹم
میں کوئی شریف آدمی الیکٹ نہیں ہو سکتا کیونکہ کوئی شریف آدمی اس کو ووٹ
نہیں دیا گا۔۔۔اس سسٹم میں کوئی غریب بر سرِ اقتدار نہیں آسکتا کیوں کہ
غریب اپنی مجبوریوں کا سودہ پہلے ہی کر چکے۔۔۔۔یہاں کوئی نظریاتی آدمی اوپر
نہیں آ سکتا کیونکہ جب تک آدھی آبادی ان پڑھ ہے نظریات کی سیاست کی دکان
پر مندہ ہی رہے گا۔۔۔۔۔۔یہاں اقتدار صرف ان کا حق ہے ، جن کی جیب میں سکے
ہیں، جن کے آبا حکمران تھے جن کی نسلیس حکمران ہوں گی۔۔۔۔