کیا پاکستانیوں کو اب ڈنمارک کا ویزہ نہیں ملے گا؟

1
4714

ڈنمارک سکینڈے نیویا میں واقع ہے جہاں کے لمبے دن اور لمبی راتیں بہت مشہور ہیں، شاعروں اور لکھنے والوں کے آئیڈیل جگہ ہے ، وصل کے دن ہوں تو سورج بھی گھر جانے کو نہ آئے، اور ہجر کی راتیں ہوں تو کاٹتے نہ کٹیں۔ آجکل ڈنمارک میں غیر ملکیوں پر صعوبتوں کی راتیں طاری ہیں گو کہ آنے والا موسم بہار بھی نئے شگوفوں کی صورت درختوں سے جھانک رہا ہے مگر پھر بھی دل کے موسم خوبصورت نہ ہوں تو باہر کے اجالے بھی آنکھیں ہی چندھیاتے ہیں۔ جب سے موجودہ حکومت نے باگ ڈور سنبھالی ہے غیر ملکیوں پر ہر روز ایک تازہ مصیبت طاری ہونے کی خبر ملتی ہے، حد تو یہ ہے کہ معاملات امیگریشن کی وزیر نے اپنی پچاس ترامیم منظور ہونے پر ایک خوبصورت کیک سے جشن منایا، جس کو لیکر یہاں میڈیا میں خوب بحث چلتی رہی ، اکثریت نے وزیر موصوفہ کو انسانی احساس سے عاری قرار دیا جو لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرکے خوش ہوتی ہیں۔

جہاں باقی غیر ملکیوں پر اس غیر ملکی مخالف حکومت کی طرف سے عنایات کی بارش ہو رہی تھی تو پاکستان جس کے باسی یہاں ایک بڑی کمیونٹی کی صورت موجود ہیں کیونکر نہ فیض یاب ہوتے، لیجئے ایسا ہی ہوا، پاکستانیوں کو ویزہ کی کیٹگری نمبر پانچ میں ڈال دیا گیا، خیر اس سے پہلے بھی ہم نمبر ایک میں نہ تھے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی خوشی غمی پر عزیزواقارب کو ویزہ مل ہی جاتا ہے، جس کو یوں سمجھ لیجئے کہ مکمل طور پر بند کردیا گیا، یہ ویزوں کی تقسیم کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ کسی ملک کے شہری مقررہ ویزہ کی مدت کے اندر ملک چھوڑ دیں اور کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث نہ ہوں۔

گروپ ایک۔

ایسے ممالک جن کے شہری مجرمانہ کاموں میں کم سے کم شامل ہونے کا چانس رکھتے ہوں، اور ڈنمارک یا کسی دوسرے شینگن ملک میں غیر قانونی سکونت اختیار کرنے کا نہ سوچتے ہوں۔ ان ویزوں کی نوعیت پرائیویٹ، سیاحتی، کاروباری، سماجی یا سائنسی ہو سکتی ہے۔ اس گروپ میں شامل ممالک درج ذیل ہیں

Group 1

angola

lesotho

bahrain

Madagascar

belize

Maldives

bhutan

mozambique

bolivia

namibia

botswana

nauru

Cambodia

oman

Comoros

Papua New Guinea

The Dominican Republic

qatar

The you. People’s Republic of Korea

Sao Tome & Principe

dominica

Saudi Arabia

ecuador

Suriname

fiji

swaziland

gabon

South Africa

guyana

Tajikistan

Indonesia

Taiwan i)

jamaica

tanzania

Cape Verde Islands

turkmenistan

China

Equatorial Guinea

laos

گروپ 2

اس گروپ میں شامل ممالک غیر قانونی طور پر ڈنمارک میں مقیم ہونے کا رسک رکھتے ہیں، اس میں شامل ممالک کچھ یوں ہیں۔

Division 2

benin

Kazakhstan

Bosnia and Herzegovina ii)

Kyrgyzstan

Burkina Faso

liberia

Congo (Brazzaville)

Macedonia (FYROM) iii)

cuba

malawi

The Central African Republic

Mauritania

Djibouti

Moldova iv)

guinea

Mongolia

Guinea-Bissau

Montenegro v)

haiti

nepal

niger

Uzbekistan

Serbia vi)

zambia

Chad

zimbabwe

thailand

togo

گروپ 3

ان ممالک کے لوگ نمایاں حد تک غیر قانونی سکونت اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا خدشہ موجود ہے، اس گروپ میں شامل ممالک یہ ہیں۔

Main Group 3

Armenia

jordan

Azerbaijan

kenya

Burma (Myanmar)

kuwait

burundi

Morocco

Cameroon

Russia

Egypt

Rwanda

ivory Coast

Sierra Leone

Phillipines

Sri Lanka

Georgia

Turkey

ghana

uganda

Belarus (Belarus)

ukraine

India

vietnam

گروپ 4

اس گروپ میں موجود ممالک کے لوگوں کا غیر قانونی سکونت اختیار کرنے کا بڑا خدشہ موجود ہے، اس گروپ کے ممالک کو بہت قریبی رشتہ دار، تعلیمی یا سماجی کاموں کے حوالے سے ہی ویزہ ملنے کا امکان ہے۔ پاکستان بھی پہلے اسی کیٹگری میں شامل تھا۔

Main Group 4

Algeria

mali

bangladesh

nigeria

The you. Republic of Congo

Stateless Palestinians vii)

Ethiopia

senegal

gambia

sudan

Iran

South Sudan

Kosovo

Tunisia

Lebanon

yemen

Libya

گروپ 5

اس گروپ میں شامل ممالک کے لوگ غیر قانونی سکونت کے لئے ایک بڑا خدشہ ہیں اور ڈنمارک اور شینگن ممالک کے لئے خطرے کا باعث بھی ہو سکتے ہیں۔ان ممالک کے لوگوں کو ویزہ صرف انتہائی مجبوری یا کسی غیر معمولی صورت حال میں ہی دیا جا سکتا ہے، اور یہاں کے کے لوگوں کے لئے تعلیمی ، سماجی یا ثقافتی  یا کاروباری ویزہ بھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔  اس فہرست میں درج ذیل ممالک شامل ہیں۔

Division 5

afghanistan

pakistan

eritrea

Somalia

Iraq

Syria

ویزے کی فہرست میں پاکستان کا شمار شام، عراق، صومالیہ، افغانستان وغیرہ کے ساتھ شمار کیا جانا ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ کیا پاکستان کے حالات اس قدر مخدوش ہو چکے ہیں کہ اس کو خانہ جنگی والے ممالک کی فہرست میں شامل کردیا جائے؟ یا غیر ملکی مخالف حکومت کی خصوصی محبت کا نتیجہ ہے کیونکہ پاکستانی ایک بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔

کچھ دوستوں کے توسط اس فیصلے کی وجہ پاکستان سے بننے والے جعلی پاسپورٹس بھی ہیں، کیونکہ ان پاسپورٹس کا فائدہ اٹھا کر کوئی دہشت گرد بھی ملک میں داخل ہو سکتا ہے، لیکن میرے خیال یہ وجہ کافی نامناسب ہے کیونکہ اکثریت اپنے والدین یا عزیز و اقارب کو بلانا چاہتی ہے جس میں ان ممالک میں موجود کوئی سکونت پذیر تحریری طور پر اپنی ذمہ داری کا اعلان کر رہا ہوتا کہ ان افراد کا میں ذمہ دار ہوں، اگر کوئی ذمہ دار پرامن شہری موجود ہے تو اداروں کو ان افراد کا احترام کرنا چاہیئے۔

اس وقت ڈنمارک میں قریبا ساٹھ لاکھ آبادی میں پینتس سے چالیس ہزار پاکستانی موجود ہیں، پاکستانیوں کی دوسری نسل ہر کاروبار زندگی میں نمایاں نظر آتی ہے، ڈاکٹر، وکلا، سیاستدان، انجئیرز، سماجی کارکن، سیاسی نمائیندے، ہر جگہ پاکستانیوں نے اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا ہے۔ لیکن پھر کیا وجہ ہے جو پاکستانی مشکلات میں گھرتے چلے جا رہے ہیں۔ گذشتہ سات سالوں میں جو وجوہات مجھے سمجھ میں آئی ہیں، ان میں ایک بڑی وجہ آپس کی نااتفاقی ہے، لوگ ایکدوسرے کے ساتھ ، ایک دوسرے کے پیچھے چلنے کو تیار نہیں، پہلی نسل کے اکثر لوگ جفاکش تھے اور زندگی کی محرومیاں بھگانے کے لئے سخت محنت کے عادی رہے، اس لئے لطافت کچھ کم ہوتی چلی گئی، جو پہلی نسل انہوں نے پروان چڑھائی، اس کا پاکستان سے کتنا رابطہ ہے یہ سوال ابھی جواب طلب ہے، کتنے بچے خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں یا اپنے عزیز و اقارب سے پاکستان میں رابطہ رکھنا چاہتے ہیں تو شاید ان کی تعداد غالب نہ ہو، اس بات کا انداز اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پیدا ہونے والے کتنے بچے پاکستان کی زبانوں میں کوئی زبان بول ، یا سمجھ سکتے ہیں؟

پہلی نسل کے وہ لوگ جن کا رابطہ پاکستان سے جسم و جان کی طرح ہے ان کی فصل اب پک چکی ہے، دوسرا طبقہ جو بہت بعد میں آیا یا بعد از تعلیم ڈنمارک میں سیٹل ہوا، ان کی تعداد بہت کم ہے، لیکن ان لوگوں کی اکثریت ابھی روٹی روزی کی دوڑ میں مدہوش ہے کہ کسی قانون کے بننے بگڑنے کا ہوش نہیں رکھتی

میرے خیال میں اگر پاکستانیوں کی آبادی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے، تو پہلی نسل، ان کے والدین جو ابھی حیات ہیں، دوسرا حصہ ایسی نسل جو یہاں پیدا ہوئی اور ان کی اولاد، تیسرا حصہ جو بعد میں گرین کارڈ طرز کی سکیموں پر ڈنمارک آئے، ان لوگوں میں پاکستان سے ساتھ جی جان سے اگر کوئی جڑا ہے تو پہلی نسل اور ان کے والدین ہیں، درمیان کا بڑا طبقہ جو تعداد میں سب سے زیادہ ہے یعنی یہاں پیدا ہونے والے اور ان کے بچے ان کو پاکستان کے معاملات سے زیادہ دل چسپی نہیں ہے، ان کے عزیزواقارب کو ویزہ ملے نہ ملے ان کو زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے والدین ان کی جنم بھومی سب کچھ ان کے پاس ہے۔

ایسے میں پاکستانی مسائل پر بات کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، ابھی اسی مسئلے کو لیکر پاکستانی کمیونٹی کی بہت سے آرگنائزیشن اکٹھی ہوئیں اور یہ طے پایا کہ اس معاملہ کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھایا جائے گا، اس کے ایک دستخط مہم کا آغاز کیا گیاہے، فیس بک پر آگاہی کا صفحہ بنایا گیا ہے، لیکن دو تین دنوں سے جو لوگوں کا رجحان نظر آ رہا ہے مجھے لگتا ہے کہ ایسی تحریک پاکستانیوں کی روایتی عدم دل چسپی کا شکار ہو جائے گی۔ ہر کوئی صرف اسی دن آواز اٹھائے گا جس دن اس کے اپنے آنگن میں آگ لگے گی، ورنہ کسی کو کسی دوسرے کے معاملہ سے کچھ سروکار نہیں۔ اس سے پہلے بھی پاکستانی کمیونٹی نے پاکستانیوں کی امن پسندی کو عام کرنے کے لئے ایک بڑے اکٹھ کا اہتمام کرنا چاہا تھا لیکن سوسائٹی کے اکثریت اس پروگرام کا حصہ نہ بن سکی تھی، نجی محافل میں لوگ  ایسی جگہوں پر نہ جانے کی درجنوں تاویلیں پیش کرتے ہیں لیکن اصل میں ان سبھی دلائل کو ایک لفظ نا اتفاقی میں سمویا جا سکتا ہے۔

اتنے زیادہ تعداد میں کمیونٹی ہونے کے باوجود بھی سیاسی سطح پر پاکستانیوں کی نمائندگی بہت کم ہے، اس کی وجہ پاکستانیوں کا ایک دوسرے سے عدم تعاون ہے، ان مہذب ملکوں میں رہ کر جہاں نظم و نسق زندگی کی ہر دوڑ کا حصہ ہے پاکستانیوں ایک تسبیح میں پروئے ہوئے نظر نہیں آتے، یہاں تین نسلیں آنے کے بعد بھی ذات برادری، کام ، مذہب، فرقہ یعنی ہر طرح کی تقسیم میں بٹے ہوئے پاکستانی حسب سابق کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ کہ کوئی باہر سے آکر ان کے مسائل حل کر دے گا، لیکن یہ سب معاملات اسی وقت حل ہوں گے جب ہم اتفاق و اتحاد سے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں گے۔

ابھی یہ معاملات کسی حد تک حرارت پکڑ ہی رہے ہیں کہ پاکستان میں ڈنمارک کے سفیر صاحب کے فیس بک پیج پر ایک وضاحت کے سکرین شاٹ بھی دیکھنے میں آ رہے کہ پاکستانیوں کو حسب سابق ویزہ ملتا رہے گا، بلکہ وہ کاروباری حضرات کے مزید آسان ویزہ شرائط کے خواہشمند ہیں لیکن وزارت کی ویب سائٹ پر ملکوں کی تقسیم اور ان کے نیچے لکھی ہوئی وضاحت کوئی کہانی کہہ رہی ہے۔

ایک دوست کا موقف ہے کہ ڈنمارک میں والدین کے ویزہ اپلائی کرنے پر کبھی بھی بین نہیں رہا، والدین کا ویزہ اب بھی اپلائی کیا جا سکتا ہے، اس کے لئے اس سکرین شاٹ کی وضاحت کو کافی سمجھا جائے، یا  متعلقہ وزارت کی ویب سائٹ پر لکھی ہوئی عبارت کو درست سمجھا جائے؟

1 تبصرہ

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.