اس دکھ کا اظہار ناممکن ہے

0
1978
اس دکھ کا اظہار ناممکن ہے، جو پاکستان کے دل پر اور پاکستانیوں کے دل پر بیتی ہے، خوشی کے لمحوں کی تلاش میں گلشن کی سیر کو آئے بے خبر ایک نا گہانی موت کا شکار ہو گئے، روتی ہوئی ماوں کے آنسو کون پونچھے کہ آج پتھر کی بھی آنکھ نم ہے، وہ جن کے خاندان اجڑ گئے ، جن کے پیارے بچھڑ گئے اس سانحے پر کس جان کنی کے عالم میں ہیں، ان کا درد بیان سے باہر ہے، گنگ تو ان کی زبانیں بھی ہو گئی تھیں جن کو صرف یہ اندیشہ تھا کہ یہ گلشن بھی ان کے گھر کے رستے میں ہے، اتنا خون بہہ چکا ہے پاکستان کی گلیوں میں کہ الامان۔۔۔۔
مگر سلام ہے ان لوگوں پر جو اس خوف کی فضا میں گھروں کو چھوڑ کر ہسپتالوں میں خون کا عطیہ دینے پہنچے، سلام ہے ان لوگوں پر جنہوں نے کٹے پھٹے جسموں کو اکٹھا کیا، سلام ہے ان مسیحاوں پر جو علاج کے ساتھ ساتھ لہو بھی دیتے رہے۔
مگر ایک سوال دل میں نشتر کی طرح لگتا ہے کہ کب ہمیں امن نصیب ہوگا؟ کب بچوں کی پارک جانے کی خواہشوں پر سر جھکانا آسان ٹھہرے گا، وہ پاکستان جہاں عبادت گاہیں مقتل ٹھہریں تھیں اب گلستاں بھی لہو رنگ ہوئے۔ ۔۔۔۔

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.