اپنے آپ سے آغاز مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔۔۔۔مشکل اس لئے بہت کچھ لکھتے ہوئے اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے ، اس مصنوعی معاشرے سے جس کے عزت کے معیار پر ہم کو آئندہ کے لئے کم تولا جائے گا، ان گھٹیا لوگوں کی نظر میں ہماری شرافت بے معنی ہو جائے گی جن کو اپنے گناہ جاری رکھنے کے لئے ایک دیوار اور اندھیرے کی چادر کی ضرورت ہے۔۔۔۔اور یہ آغاز بہت آسان بھی ہے۔۔۔۔آسان اس لئے کے کچھ محنت نہیں کرنا پڑتی جو بیتتا ہے آدمی وہ کہہ دیتا ہے۔۔لیکن پھر بھی نام نہاد معاشرتی تقاضوں کے بندھن میں بندھ کر ہم دل کی ہزار باتوں کو روکے رکھتے ہیں۔یہاں یہ بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ ہر عمل کا جوابی ردعمل اتنا فوری نہ ہی تو اچھا ہے۔۔۔۔کچھ باتیں وقت کے پہلے لمحے میں ہم کو سمجھ نہیں آتیں۔۔۔یا ہم ان کو کسی اور رنگ میں دیکھتے ہیں لیکن کچھ ہی دیر میں جب حقائق نتھر کر سامنے آتے ہیں تو ہماری رائے کافی حد تک تبدیل ہو چکی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
احباب کا خیال ہے کہ شاید مایوسی قسم کی کوئی چیز ہماری زندگی میں داخل ہی نہیں۔۔۔۔مجلسی تبسم کے اسرار میں جو محرومیاں سر اٹھاتی رہتی ہیں، کبھی ان کی کھٹاس سے آنکھوں کے کناروں پر نمک آ ہی جاتا ہے۔۔۔۔۔۔لیکن پہلی نظر میں تو شاید ہر کسی کو سب اچھاہی لگتا ہے۔۔۔۔۔۔ہر انسان پر کمزور لمحوں کے جھکھڑ وار کرتے رہتے ہیں اور وقت کے کسی لمحے میں یہ آدمی کو اپنی لپیٹ میں لے بھی لیتے ہیں لیکن بہادر آدمی وہی ہے جو ان مشکلات میں ان کمزور لمحوں میں اپنے حوصلوں کی طنابوں کو تھامے رکھتا ہے، خیمہ جاں کے سبھی کناروں کو ان کے مرکز سے جدا ہونے نہیں دیتا۔۔۔۔۔