لائکا موبائل کی ویب میرے سامنے کھلی پڑی ہے، انڈیا کال کرنے کے لئے کال ریٹ ایک اوورا یا آپ سہولت کے لئے ایک پیسہ فی منٹ کہہ لیجئے اور پاکستان کال کرنے کے لئے ننانوے اوورے یا یا ایک ڈینش کروون کہہ لیجئے فی منٹ کال ریٹ ہے۔۔۔۔ایسا کال ریٹ کا فرق پہلے ان ممالک میں تھا جہاں امریکہ اور یورپ نے پابندیاں لگا رکھی ہوں اور یا وہ ممالک دنیا کے کسی ویران گوشے میں واقع ہوں۔۔۔پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی کہانیاں ،مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں خوب مرچ مصالحے کیساتھ ہم عرصہ تک پڑھتے آئے ہیں اس لئے پاکستان اور اس کے ہمسائے میں ایک ہی سہولت کا سو گنا فرق ہماری سمجھ سے
باہر ہے۔۔۔۔
رہے امریکہ اور یورپ تو وہ ایسے معاملات کو پاکستان کا خاص نجی معاملہ قرار دیتے ہیں اور اگر یہ اضافہ منتخب شدہ جمہوری حکومت کی طرف سے ہو تو حکومت کو رٹ کو کبھی بھی چیلنج نہیں کرتے۔ریٹ بڑھنے کے معاملہ پر کمین گا ہ کے کمینوں سے ملاقات کا موضوع کچھ احباب نے اٹھایا ہے لیکن ان غریب الدیار لوگوں کی آواز دیس کے گھمبیر مسائل کے دھماکوں میں ٹھس سے زیادہ کی نہیں ہے۔۔۔
مثل مشہور ہے پانی ڈھلوان کی طرف ہی آتا ہے۔۔۔ایسے ہی کال ریٹ بڑھنے کا نقصان ان مجبور مزدوروں کو ہی ہوگا جو پردیس کی بھٹی میں جھلس کر اپنے عزیزو اقارب کے لئے سکھ تراشتے ہیں، پاکستان میں اکثریت اس بات سے نا آشنا ہے کہ پردیس کی زندگی کس قدر کٹھن ہے، وہاں یہ خیال غالب ہے کہ شاید روپے کسی درخت پر اگتے ہیں ، وہاں آسائشوں میں بسے لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی خوشیوں میں اپنے بہن بھائیوں کو شریک کریں۔ لیکن وہ اس کہانی کو بھی سننے کے روادار نہیں جو ان پردیسیوں پر گذرتی ہے، اس زندگی کا ادراک صرف وہی کرسکتا ہے جس نے پردیس میں زندگی کے کچھ برس گذارے ہوں وگرنہ دیس میں بیٹھ کر کسی کہانی سے پردیسیوں کے دکھ کا اندازہ کرلینا ایسے ہی جیسے کوئی کہے کہ وہ اندازہ کرسکتا ہے کہ مرنے میں کیا تکلیف ہوتی ہو گی۔
پاکستان کی گرتی ہوئی معاشی صورتِ حال کو بہتر کرنے کے لئے حکومت کا مختلف آپشنز پر سوچنا ایک احسن عمل ہے اور اسی میں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ بیرون ملک پاکستان اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو میر ے خیال میں بیرون ملک مقیم پاکستانی اس کو اپنی خوش قسمتی تصور کریں گے لیکن بغیر کسی پلاننگ کے ان کو جیبوں کی طرف ہاتھ بڑھا دینا اور اس طرح کا جگا ٹیکس لگا دینا ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔۔۔
اس ٹیلی فون کال مہنگے کرنے کے بیرونِ ملک پاکستانی میں اثرات کچھ اس قسم کے ہوں۔ وہ جو پرانے ہو چکے ہیں جن کی پہلی اور دوسری نسل ان ممالک میں پیدا ہوئی ہے ان کو اس کا شاید کوئی فرق نہ پڑے کیونکہ ان میں سے اکثریت پاکستان سے کافی حد تک کٹ چکی ہے ، جن کے ہم عمر عزیز، دوست حیات ہیں وہ پاکستان کو یاد تو کرتے ہوں لیکن اب وہ اس طرح کے متحرک رابطے میں ہرگز نہیں جس میں بہت زیادہ کال کرنے کا احتمال ہو،
ایسے بہت سے احباب جو پڑھنے کی نیت سے یہاں آئے ہیں اور ان کا خاندان عزیز ، رشتہ دار سب پاکستان میں ہیں، کال کرنا ان کی روزانہ کی ضرورت ہے اور ان میں جو لوگ شہروں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجودہے انکو اس کا خاص فرق نہیں پڑنے والا سوائے ان لوگوں کہ جن کے خاندانوں کے پاس انیٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں۔
ایک طبقہ جسے سب سے زیادہ فرق پڑتا ہے وہ ہے پردیس میں آکر مزدوری کرنے والے ان محنت کشوں کو جن کا سارا خاندان پاکستان میں ہے ، ان میں اکثریت ان احباب کی ہے جو مشرقِ وسطیٓ کی خلیجی ریاستوں میں معمار، مزدور، دیہاڑی دار، خاکروب اور ایسے ہزاروں پیشوں سے وابسطہ ہیں جن میں وہ اپنے خاندان کو یہاں لانے کے متحمل ہی نہیں ہوتے اور ان لوگوں کے لئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اپنے گھر والوں سے بات کر لینا ہے۔
اس مہنگی کال سے ہر صاحب حیثیت اپنی جیب کے مطابق اثر انداز ہوگا، لیکن وہ بد نصیب پاکستانی جن کی زندگی پاکستان میں گذرنے والی زندگی سے بھی بری ہے اس پر یہ اضافہ بہت گراں گذرے گا، لیکن نجانے کیوں مجھے یقین سے ہے اس بات پر حکومتِ وقت توجہ دے گی ہی نہیں کیونکہ بڑی مشکل سے تو انہوں نے کوئی حل نکالا ہے اور وہ تیر بہدف نسخے کو ترک کر دیں ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کی داستانیں کچھ ایسی نہیں جن سے کسی آنکھ کا کنارہ بھی گیلا ہو سکے، قومی ائیرپورٹ سے شروع
ہوجانے والی درگت سے لیکر ہر وہ زیادتی
جو ان پردیسیوں سے روا رکھی جاتی ہے اس میں کچھ بھی اتنا برا نہیں کہ جن میں کسی کی جان جانے کا اندیشہ ہو، اور حکومت پاکستان جب تک دو چار بندے پھڑک نہ جائیں اس وقت تک کہاں کسی مسئلے پر کان دھرتی ہے