الٹی ہو گئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھااس بیماری دل نے آخر کام تما م کیا
ایسا ہی ہوا پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں سے دوائیاں لینے والوں سینکڑوں مریضوں کے ساتھ کہ بیمار ہوئے جس کے سبب اسی سے دوا کے طلبگار رہے، سنا ہے کوئی کمیشن بھی بنا اور سرکاری جادونگری میں ایک کاؤنٹر کا اضافہ بھی کردیا گیا لیکن جس کا جیون ساتھی چھنا یا جن کو یتیمی کا جھٹکہ لگا ان کا مداوہ کون کرے گا۔۔۔۔
اس دفعہ سوا سو سے زائد لوگ کرپشن دیوی کی نظر ہوئے، پہلے تو یہ آدم خور بلا گاہے گاہے چپکے چپکے چن چن کر بچے ، بوڑھے۔ جوان اور عورتیں اٹھاتی تھی اب کی بار تو اس کی منہ کو دل کے مریضوں کا لہو لگ گیا ہو۔۔۔سنا تھا ڈائینیں سات گھر چھوڑا کرتی ہیں تو مجھے گمان ہے کہ ان سات گھروں میں ہمارا حکمران ٹولہ بستا ہے، جن کے گھروں کی دیواروں پر مچھر پر نہیں مارتے اور دل کی کسی بیماری کا بھی گزر نہیں ہوتا اور ہو بھی تو ان کو دیس کے ہسپتالوں پر اعتبار کب ہے، دبئی کے امریکی ہسپتال تک پاکستانی عوام کی پہنچ نہیں بیچارے ڈینگی کی کہاں سے ہو گی۔
اس سارے معاملے کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ تسلیم کر لیا گیا کہ ادویات ناقص ہیں وگرنہ سال ہا سال کسی نے ایسے معاملات پر غور ہی نہیں کیا اور شنید ہے اصلی ناموں کے پیچھے بہت سی نقل ادویات بکتی چلی آتی ہیں اور ہمارے لوگ رضائے قدرت سمجھ کر رنگ برنگ چورن اور گولیاں پھانکتے آتے ہیں کہ ابھی اوپر والے سے صحت کی منظوری نہیں ہوئی۔ آپ لوگوں سے پوچھ کر دیکھیں لوگ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ فلاں میڈیکل سٹور سے دوائی خریدی تھی تو بہتر تھا اور اب فلاں سے خریدی ہے تو پھر ویسے کا ویسا ہوں۔ جب سے ہمارے بڑے بھائی جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں انہوں نے کچھ عام استعمال کی ادویات مثلا پیناڈول، بروفن وغیرہ ناروے سے بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ہے گھر میں یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ پاکستانی دوا میں وہ اثر نہیں ہے ۔ اس کی وجہ سراسر نفسیاتی بھی ہو سکتی ہے، لیکن پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے وقوعہ کے بعد پاکستانی ادویات کو شک کی نظر سے دیکھنا کچھ اتنا بھی غیر مناسب نہیں, اس وقوعہ کے بعد غیر یقینی کی ایک فضا پیدا ہوئی کہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے یا وہ کون سی ادویات ہیں جو خرابی کا باعث ہیں اور دوسرا ان لوگوں سے فوری اور بروقت رابطہ جن کے پاس دوائی چلی گئی تھی تا کہ وہ اس کو استعمال نہ کریں ان سارے مسائل کے حل کے ہمیں دنیا میں اویات کی تقسیم کے کامیاب نظاموں کا جائزہ لینا ہو گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پرانے مروجہ نظاموں کی درستی فرمائیں اور ان کی پرانی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور سب سے اہم یہ کہ کرپشن دیوی کہ حضور انسانی خون کا نذرانہ بھیجنے والوں کا قلعہ قمع کریں۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارے ارباب اختیار کامیاب نظاموں کو اپنے ملک میں لانے سے کیوں ڈرتے ہیں، بجائے روپوں کی بھیک مانگنے سے ہم اپنے لئے اصطلاحات طلب کیوں نہیں کرتے، مثال کے طور پر ڈنمارک میں صحت کے نظام سے پاکستان کے لئے بہت سے اچھی باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں خصوصا ادویات کی ترسیل اور ریکارڈ کا نظام من و عن اسی طرح نافذ کیا جا سکتا ہے۔
یہاں سارا نظام اب کمپیوٹرائزڈ ہے، ڈاکٹر مریض کے لئے جو دوائی تجویز کرتا ہے وہ ساتھ ہی اس کو اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیتا ہے اور اس نسخے کی نقل خودبخود فارمیسی تک پہینچ جاتی ہے، مریض اپنی پرچی لیکر جب فارمسسٹ کے پاس جاتا ہے تو اس کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ مریض کو کون سے دوا تجویز ہوئی ہے ، اس کا سسٹم اس دوائی کا طریقہ اور وقت استعمال ایک سٹکر پر پرنٹ کر دیتا ہے جسے فارماسسٹ دوائی کی ڈبی پر چسپاں کر دیتا ہے ، مریض کا نام پتا پہلے سے تیار کردہ سسٹم میں موجود ہوتا ہے اس طرح مریض اپنی زندگی میں جب جب دوا لیتا ہے اس کا ایک روزنامچہ بنتا جاتا ہے، اور اس گوشوارے کو ہر ڈاکٹر جو اس سسٹم کا حصہ ہے مریض کی مرضی سے دیکھ سکتا ہے اور یوں ڈاکٹر کے پاس مریض کی سابقہ استعمال شدہ ادویات کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے جو اس کو مریض کے بارے جاننے میں مکمل مدد دیتا ہے۔مریض کے جتنے ٹیسٹ ہوئے ان کو بھی اسی سسٹم کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ پچھلے سال میرے جنرل ڈاکٹر نے مجھے وٹامن ڈی کھانے کے لیے کہا اس نے گمان کیا کہ مجھے ساتھ میں کیلشیم بھی لینا چاہیے تو اس نے میرے لئے کیلشیم اور وٹامن ڈی کی گولیاں تجویز کیں ، کچھ دنوں بعد میرے خوں کے نمونے دیکھ کر ایک دوسرےڈاکٹر نے مجھے کیلشیم کھانے سے منع کر دیا کیونکہ اس نے سسٹم میں دیکھا نے جنرل ڈاکٹر نے اس کو لکھ تو دیا ہے لیکن اس کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کی اس کو ضرورت نہیں، خیر یہ تو ہم آہنگی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جس کی مدد سے ہمارے مروجہ نظام کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اس سسٹم کی مدد سے آپ چند لمحوں میں جان سکتے ہیں کی پورے شہر میں آج کے دن میں بروفن کی کتنی گولیاں بکی ہیں ان کا بنانے والا کون ہے اور ان کے کھانے والا کس گلی میں ہے کتنی عمر کا ہے اور اگلی گولی وہ کب کھائے گا۔
سسٹم کے اس حصے کو نافذ کرنے کے لئے جس سافٹ ویئر کی ضرورت ہے پاکستان میں اس کو بنانے والے سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے ارباب اختیار ان معاملات پر سوچیں اور اشتہار بازی کی سیاست سے بالاتر ہو عوام کے فائدے کے لئے متحد ہو جائیں۔