الحمدللہ دو سال چار مہینے کے بعد پاکستان میں ہوں، ان سالوں ، مہینوں میں کیا بیتی ایک لمبی کہانی ہے، لیکن اس عرصے کے بعد آج پہلا دن پاکستان میں گذرنے والا ہے، عزیزواقارب کی محبت، مٹی کی کشش، اور اپنے لوگوں کا والہانہ پن دنیا میں کہیں دستیاب نہیں۔۔۔لیکن ائیر پورٹ سے گھر تک کے سفر میں سٹرک پر ٹریفک کا چال چلن ، ہارنوں کا شور دیکھ کر میرے ذہن میں یہی خیال آیا کہ ابھی ہم ترقی یافتہ دنیا سے سو نہیں تو کم از کم پچاس سال پیچھے ضرور ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ سڑکوں کا نظام بہتر ہوا، کینال روڑ لاہورکا کشادہ ہونا ایک خوش آئند امر لیکن سڑک پر لگائی گئی لائنوں کی حرمت کا احساس کسی کو نہیں، مجھے تو یوں گمان ہوتا ہے کہ شاید لوگوں کو احساس ہی نہیں ہے کہ ان کی گاڑی کے ٹائروں نیچے کچھ سفید رنگ کے نشانات بھی ہیں ۔۔ائرپورٹ سے آدھے میل کے اندر اندر دو رکشہ ڈرائیورز کو ون وے کی خلاف ورزی کرتے دیکھا۔۔۔ایسی انہونی جس کا ہونا مہذب دنیا کا کوئی شہری سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔اور ہارن کا استعمال ۔۔۔۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ ہارن کے بغیر گاڑی چلانے کا تصور کرلیں، ایرپورٹ سے ٹھوکر تک کے سفر میں درجن تک تو میں نے گنا پھر اس کو مشیت سمجھ کر بغیر زیبرا کراسنگ کے سڑک عبور کرنے والے لوگوں کے بارے سوچنا شروع کر دیا، آپ یقین مانیئے کہ ایف سی کالج کے انڈر پاس پر جہاں ڈھلوان شروع ہو جاتی ہے وہاں ایک برقعہ پوش خاتون سڑک پار کر رہی تھی۔۔اتنی ہمت، دیدہ دلیری کا مظاہرہ یورپ میں کرنے کا کوئی حوصلہ کر ہی نہیں سکتا۔
فیروز پور پل کے پار ٹریفک ذرا آہستہ تھی تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ گاڑیوں کی ٹکر کا معاملہ بیچ سٹرک نمپٹایا جا رہا ہے۔ ذرا آگے شہر کی پولیس سپیڈ لمٹ کی حفاظت کے لئے کیمروں کے ساتھ موجود تھی۔۔۔پولیس سے مجھے یاد آیا کہ لگا میں کسی پولیس سٹیٹ میں آگیا ہوں ایرپورٹ سے ٹھوکر تک کم از کم چار جگہوں پر پولیس کے ناکے تھے اور ایسا کوئی نشان بھی آپ کو مہذب دنیا میں نظر نہیں آتا، ہاں بوقت ضرورت ناکے لگاتے ہوں گے لیکن یہ عمومی ہرگز ہرگز نہیں ہے۔۔۔پھچلے سارے وقت میں کبھی ایک دفعہ بھی ایک ملک کے اندر رہتے ہوئے میرا پولیس ناکے سے واسطہ نہیں پڑا۔
،