ایک وقت تھا ہمارے قومی ٹیلی ویژن پر زرعی مداخلات کے اشتہار چلا کرتے تھے، اٹھ میرے بیلیا پاڈان تیرے کول اے، کپاس کی قسمت کا ستاہ طال سٹار، اور سیبا کی پولٹرین سی، جونہی ادویات بیچنے کے بزنس میں مقامی کمپنیاں آنے لگیں، منافع کم ہونے لگا، اور آج عالم یہ ہے کہ ایک ہی پراڈکٹ درجنوں ناموں سے درجنوں کمپنیاں بیچ رہی ہیں، اس لئے زرعی ادویات کے اشتہار خال خال ہی نظر آتے ہیں، پھر پچھلے کچھ عرصہ میں موبائل کمپنیوں کے اشتہارات نے عروج پکڑا، یو فون نے بہت دل چیسپ اشتہار بنائے، نرگس فخری نے آدھا اخباری صفحہ گھیر کر موبللنک کو مشہور کیا، لیکن کچھ عرصہ سے کچھ نئی کمپنیاں اشہتاری دنیا میں نمایاں ہوئی ہیں ان میں رنگ گورا کرنے والی کریموں نے خاصی جگہ گھیر رکھی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں لاہور سے ملتان تک کی روڈ پر ان کریم والی کمپنیوں کے بڑے بڑے بل بورڈز ہر شہر کے دروازے پر آپ کا استقبال کرتے نظر آتے ہیں۔
میرا آبائی شہر چیچہ وطنی ہے ، اس لئے رنگ گورا کرنے والی چند مشہور کریموں کے مالکان اور ان کی بدلتی زندگی کی کہانیاں میرے اردگرد بکھری ہوئی ہیں، کہتے ہیں شہر کی ساری زمینں ان کریموں والوں نے مہنگی کر چھوڑی ہیں، پچھلے دنوں ایک مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا ، دوست نے بتایا کہ یہ ساری کی ساری مسجد پرل وائیٹ کریم بنانے والے صاحب نے تحفہ کی ہے۔ ایک چھوٹے شہر سے تعلق ہونے کے ناطے آپ کے شہر کی کوئی چیز مشہور ہو جائے تو آپ کو بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے ہی مجھے خوشی ہے کہ ہمارے شہر کی رنگ گورا کرنے والی کریمیں ملک کے طول و عرض میں نام کما رہی ہیں، سنا یہ بھی گیا ہے کہ یہ کریمیں باہر کے ملکوں میں بھی بھیجی جاتی ہیں، میرا خیال تھا کہ اپنی ذاتی تشہیر کے لئے کسی نے ایسا کہہ دیا ہو گا ورنہ یہاں تو گورے سن باتھ لے کر یا سول سنٹر پر جا کر اپنا رنگ سانولہ کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ لیکن ابھی بی بی سی کی ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی ہے، جس کے توسط پتا چلا ہے کہ ہمارے ملک کی کئی ایک کریمیں انگلینڈ میں پائی گئی ہیں، اور ان پر پابندی بھی لگا دی گئی ہے، رپورٹ کے مطابق ان رنگ گورا کرنے والی کریمیوں میں ایسے عناصر شامل کئے جاتے ہیں جن سے جلد کو کینسر تک ہونے کا احتمال ہوتا ہے، اور یہ انسانوں کے بے حد نقصان دہ ہیں، انہی کریموں میں پاکستانی ٹی وی کمرشلز کی جان فائزہ بیوٹی کریم بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ اس تصویر میں ہمارے شہر والوں کی کریم پرل وائیٹ اور فیس فریش بھی دیکھی جا سکتی ہے، بی بی سے نے اس ویڈیو کا عنوان منافع کے لئے زہر پاشی باندھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کے پراڈکٹس کو بیچنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
https://www.facebook.com/BBCLondon/videos/1415207165187643/
پاکستان دو نمبری سے پیسہ کمانے والوں کی جنت ہے، آپ چند ہزار لیٹر برانڈڈ پیسٹی سائیڈ باہر سے منگوا کر لاکھوں لیٹر بنا کر بیچ دیں، یا کھانے پینے کی اشئیا میں ملاوٹ کر کے حرام کا پیسہ کما لیں، آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ہر چور دوسرے چور کا محافظ ہے اور سب کو اپنے منافع سے غرض ہے۔ کاش یہ کہ ایسی خبریں ہمیں باہر سے پتہ چلنے کی بجائے اپنے اداروں سے پتہ چلیں، اب ان کریموں کے بارے خبر بھی لندن سے آئی کہ یہ زہریلی ہیں اور سخت مضر ہیں، ابھی ایک دوست نے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ لندن سے تو پانامہ لیکس پر بھی تبصرہ آیا ہے اور ان کریموں پر بھی، دیکھتے ہیں کس کا فیصلہ پہلے ہوتا ہے۔
Bahut Aala Rafiq bhai..its an eye opener for Pakistani women…