کوئی ہے جو مردوں کی بھی سنے؟

0
1247

ایک وقت تھا کہ مرد کسی بھی گھرانے کا چہرہ ہوا کرتا تھا، گھر کے اندر اور باہر اس کے فیصلوں کی عمل داری ہوا کرتی تھی، خصوصی طور پر ہماری سماجی بنتی میں جہاں، عورت کی وراثت کا تعین مرد سے، عورت بیاہ کر مرد کے گھر آتی ہے، مرد کا نام جڑنے سے عورت کا نام بنتا ہے، اور مرد کو ایک گونا برتری حاصل ہے ۔

لیکن زمانے کی رفتار کے ساتھ عورت عملی طور پر ہر میدان زندگی میں مرد کے شانہ بشانہ چلنے لگی، مرد کی طرح کمانے لگی، اس کے سماجی رتبے میں اضافہ ہوا، علم و دانش کی قابلیت اس کی زندگی کے راستے طے کرنے لگی، لیکن نہ تو وراثت کا تعین اس سے ہوا، اور نہ ہی اس کو معاشرتی طور پر مرد پر فتح حاصل ہوئی، لیکن جب سے وہ معاشی طور پر کمزور مرد کو بیاہ کر لانے میں کامیاب ہوئی تو اس کے اندر ایک بے چینی پیدا ہوئی، اور کچھ مثالوں میں جہاں مرد شادی کے بعد عورت کے گھر آیا تو عورت نے بھی وہی معاشرتی وطیرہ اپنایا جو کہ اس کے پہلے ایک مرد کا تھا، عورت کا رویہ اپنے مرد سے بدلاو کا شکار ہے۔

آج کے اس دن تک میری عمر کے ننانوے فیصد دوستوں کی شادیاں ہو چکیں، درجنوں کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں، کچھ عرصہ پہلے ہم دوست کہیں باہر نکلے تھے، کھانے کا وقت ہوا تو طے پایا کہ کسی ایک دوست کے گھر چلا جائے، سب نے اپنی اپنی بیوی کو فون لگایا، ایک دوست نے فون کیا تو پتہ چلا کہ ان کی بیگم صاحبہ نے کچھ بھی نہیں بنایا، اور شاید کچھ پرانا پکا ہوا گھر میں پڑا ہو، دوسرے دوست کی بیگم صاحبہ  کسی ہمسائی کے گھر گئی ہوئیں تھیں، ہمارے والی تو ویسے ہی ملک پاکستان میں بستی ہیں اس لئے ہم تو سوال سے ہی بچے رہے، چوتھے نے بیگم کی منت سماجت کی کہ کچھ کرو ، اس نے کہا آپ لوگو آو میں دیکھتی ہوں، ان کے گھر گئے تو دوست نے کہا آج آپ کو اپنے ہاتھوں سے کچھ پکا کر کھلاتا ہوں، اور پھر اس نے آٹا گوندھا، اس کے بیگم نے پیاز کاٹے ، اور مل جل کر ایک آدھ گھنٹے میں کچھ نہ کچھ تیار ہو گیا۔ ان سب دوستوں میں سے کسی بھی دوست کی بیوی سوائے گھر داری کے کچھ نہیں کرتی۔

اب آپ پوچھیں گے کہ پاکستانی عورتیں گھروں میں کھانا بھی اگر نہیں پکاتی تو اور کیا کرتی ہیں، کچھ کہیں گی کہ وہ بچے پالتی ہیں، گھر میں درجنوں کام ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، لیکن اگر ایک عورت  پر بچوں کی ذمہ داری بھی نہیں، یا اگر ہے تو بہت شدت آمیز نہیں جیسی کہ چھوٹے بچوں کو ابتدائی سالوں میں درکار ہوتی ہے تو ایسی خواتین کے گھروں کے انتظامات دیکھ کر بھی ویرانی کا احساس کیوں ہوتا ہے،

کئی گھروں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس کو گھر کا نگہبان کوئی نہیں ہے، جونہی کوئی مہمان گھر چلا آتا ہے تو گھر کا سارا نظام درہم برہم سا ہو جاتا ہے، ہمارے بہت سے دوست فارغ وقت میں یعنی دفتر یا کام کے بعد گھر جا کر بچوں کو سنبھالتے پائے گئے ہیں کیونکہ ان کی غیر موجودگی میں بیگم ان بچوں کو سنبھال رہی تھیں اور اب والد کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کو سنبھالے ، یعنی محسوس یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی فل ٹائم کررہا ہے تو خاتون خانہ اور مرد بے چارہ تو دفتر سے یا کام سے سے آیا وہاں تو اسے کوئی مستقل پریشانی نہ تھی وغیرہ

کچھ عرصہ سے خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی خواتین کو دیکھتا ہوں تو مردوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا بھی خیال آتا ہے، ہو سکتا ہے کئی جگہوں پر ، جیسے بلوچستان ، صوبہ سرحد، یا سندھ کے صحرائی علاقوں میں یا پنجاب کے دیہات وغیرہ میں جہاں تک میری پہنچ نہیں ہے خواتین کے حقوق غصب کئے جا رہے ہوں لیکن، کوپن ہیگن سے لیکر پاکستان کے شہری علاقوں تک جہاں جہاں مرد گھریلو ہو گئے ہیں، پڑھ لکھ گئے ہیں، عورتوں سے مار پیٹ کو غیر انسانی خیال کرتے ہیں، اور بات چیت کے ذریعے اپنی بات منوانے کو شرف انسانیت سمجھنے لگے ہیں وہاں وہاں عورتوں کی حکمرانی نظر آتی ہے، حتی کہ محبت اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے جتنے بھی مفاہیم ہیں ان کا مطلب اپنی بیوی کی قدر کرنا، اس کو بلاوقت کھانا بنانے یا چائے کے لئے کہنا، جس رشتہ دار سے وہ ملنا چاہے اس سے ملنا جس مہمان سے وہ تنگ ہو اس کے لئے دروازہ بند کرنا وغیرہ شامل ہوتے جا رہے ہیں۔

ایسے سورما جو شادی سے پہلے سبی کی دھوپ جیسے تھے اب ناران کاغان قسم کی طبیعت رکھتے ہیں، صرف دوستوں سے ہی اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہیں اور اگر کبھی ان کو انکی عظمت رفتہ یاد کروادی جائے تو طعنہ و مہنہ خیال کرتے ہیں۔

میرے خیال میں ہماری بہت سی دیسی  خواتین نے آرام اور سستی بھری زندگی کو اپنا شعار بنا لیا ہے، اپنے ادرگرد دیکھیں آپ کو شادی کے بعد سلم، سمارٹ خاتون دیکھنے کو نہیں ملے گی، یعنی اپنی صحت اور خوبصورتی کا بھی خیال نہیں رکھتیں، جس کی وجہ سے بہت جلد بیماریوں میں گھر جاتیں ہیں، اگر مرد نے کمانے کی ذمہ داری کلی طور پر اٹھائی ہوئی ہے تو خواتین کو کلی طور پر گھر کی ذمہ داری اٹھانے میں کیا حرج ہے۔ امید ہے میری بہنیں اپنے بھائی کی ایک شرارت بھری گستاخی کو معاف کر دیں گے اور اپنی صحت کے بہانے گھر کے کاموں میں بھی دل چسپی لیتی نظر آئیں گی ۔

نوٹ۔ یہ بلاگ پہلے ایکپریس نیوز میں چھپ چکا ہے

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.