Home سفری بلاگ استنبول ، پیارا استنبول

استنبول ، پیارا استنبول

0
استنبول ، پیارا استنبول

استنبول دیسی آدمی کے خواب جیسا ہے، جو روایت سے جڑ کر دنیا کی ہر خوبصورتی کے تصورکو تصویر کرنا چاہتا ہے، استبول مشرق اور مٖغرب جہاں آ کر ملتا ہے، کبھی مشرقیت غالب دکھائی دیتی ہے اور کہیں یورپ کی ہوا کا ایک بھبھکا سا آتا ہے اور آدمی کو اڑا کر لے جاتا ہے، اگر آدمی نے یورپ نہ دیکھ رکھا ہو تو یورپ دکھائی دیتا ہے، اور اگر یورپ کا باشندہ ہو تو مشرق کی تصویر لگتا ہے، اب کئی درجن شہر دیکھنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ شہروں کی فضا میں بھی جادو ہوا کرتا ہے، کچھ شہر ہیں جو آپ کو ہلکا پھلکا کر دیتے ہیں اور کچھ طبیعت کو اداس اور مضمحل، استبول کی ہواوں میں ایک تازگی اور خوشگواریت کا احساس ہوتا ہے، طلسم ہوشربا کی کسی داستان کی طرح درجنوں ان دیکھی ، سوچ سے ماورا چیزیں یہاں یوں موجود ہیں کہ چشم تصور بس تماشائی بن کر رہ جاتی ہے، کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ سب اصل نہیں ہے شاید اس کی نقل بنائی گئی ہے،

جب میں نے پراگ کی سیر کی تھی تو لکھا تھا کہ پراگ شہر جیسا اور کون تو ہمارے دوستوں نے کہا تھا استنبول پر بھی نظر کیجئے تو آج استنبول میں موجود ہوں، پاکستان سے ڈنمارک میں سفر کے دوران صرف دو دن رکنے کا موقع ملا، سچ تو یہ ہے کہ استنبول کو دیکھنے اور سراہنے کے دو دن بہت ناکافی ہیں، آپ شاید کہیں کہ میں بھی ہر شہر میں پہنچ کر اس کی خوبیوں کی زور پر وہیں بس جانا چاہتا ہوں، شاید ایسا ہے کہ آپ کسی کی صحبت میں بہت مزا لیتے ہیں تو آپ اس کے ساتھ کچھ اور وقت بتانا چاہتے ہیں، ایسے ہی استنبول کی قربت نے دل پر جادو بھرا اثر کیا، ترکی کے لوگ پاکستانیوں کے لئے چشم ماروشن اور دل ماشاد محسوس ہوئے، مجھے جابجا اپنائیت کا احساس ہوتا رہا، پاکستانی وقت کے مطابق رات دو بجے کے قریب گھر سے نکلا تھا اور صبح پانچ بجے کی فلائٹ تھی، صبح دس بجے کر قریب استنبول پہنچا، میرا ہوٹل سلطان احمد نامی علاقے میں تھا، میرے گائیڈ اور دوست  رانا بابر علی جو یہاں استنبول میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، ان کا مشورہ تھا کہ ائیر پورٹ سے ٹیکسی لے لوں کیونکہ عوامی سواری سے اتر کر مجھے سات آٹھ منٹ چلنا پڑے گا، لیکن عمومی طور پر ہوٹلز کا چیک ان بارہ بجے سے ایک بجے کے بعد ہوا کرتا ہے اس لئے مجھے ہوٹل پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی، اس لئے عوامی سواری پر جانا ہی بہتر سمجھا، استبول سے شہر کی طرف جانے والی بسیں اور میٹرو ایک سستا اور معیاری ذریعہ آمدورفت ہیں، یہاں پر استنبول کارڈ نامی ایک ٹکٹ بڑے کام کی ہے، ائیر پورٹ پر میٹرو کی ٹکٹ خریدنے والی جگہ پر انفارمیشن ڈیسک قسم کی کوئی چیز مجھے دکھائی نہ دی، وہاں ٹکٹ بوتھ سے استنبول کارڈ نکالنے کی کوشش کی، لیکن یہ مشین کچھ پیچیدہ محسوس ہوئی،میرے خیال میں اس کی ٹرانسلیشن کی آپشن بہت اچھی نہیں ہے، میں استنبول کارڈ نکالنے میں ناکام رہا، ایک ترکی بھائی کو مدد کے لئے پکارا انہوں نے خوشدلی سے مدد کی، لیکن شاید مشین میں کچھ مسئلہ تھا، استنبول کارڈ تو نہ نکلا، انہوں نے مجھے ٹکٹ نکال دی، سلطان احمد ایک بہت معروف علاقہ ہے اسی میں نیلی مسجد اور حاجیہ صوفیہ جیسی تاریخی عمارتیں واقع ہیں، ایئیر پورٹ سے لی جانے والی میٹرو آپ کو اس علاقہ میں جانے کے لئے ایک دفعہ تبدیل کرنا پڑتی ہے، دنیا بھر کی میٹرو تقریبا ایک ہی جیسے انداز میں چلتی ہیں، سلطان احمد کے علاقے کو جانے والے ٹرام یا ٹرین ٹی ون ہے، ائیر پورٹ سے میٹرو کے سٹاپس کا نقشہ دیکھئے تو بخوبی ٹی ون جنکشن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، لیکن جس ترکی بھائی نے ٹکٹ خریدنے میں میری مدد کی تھی، وہ بھی اسی ڈبے میں موجود تھے، انہوں نے کہا کہ میں آپ کو جنکشن کا بتا دوں گا، تو اسطرح سے مجھے سلطان احمد جانے والی ٹرین لینے میں ذرا برابر بھی دشواری نہ ہوئی، سلطان احمد کے جس سٹاپ پر میں اترا اس کے بالکل سامنے ترکش شوارمے کی ایک دکان تھی، دل نے کہا کہ ہوٹل جانے سے پہلے ہی کچھ کھا پیا لیا جائے، اس نے بھی پوچھا پاکستانی ہو، میں نے کہا جی بالکل، اس کی مسکراہٹ کا رنگ اور تیز ہو گیا، اپنا ہوٹل ڈھونڈنے نکلا تو ایک قالین کی دکان کے سامنے سے ایک شخص نے اردو میں کہا، بھائی کدھر جانا ہے، بات ہوئی تو پتا چلا کہ ہمارا پٹھان بھائی ہیں، انہوں نے پاکستانی دودھ پتی کی آفر کی، میں نے کہا ابھی ہوٹل سے ہو آوں، انہوں نے کہا ٹھہرئیے میرا کارڈ لیتے جائیے، اور چائے پینے ضرور آئیے گا۔ ہوٹل تک پہنچا تو دیکھا یہ تو تھری سٹار ہوٹل نہیں ہے، جس ویب سائٹ پر دیکھا تھا وہاں اس کو تھری سٹار ہوٹلز کے خانے سے نکالا تھا، ہوٹل کے مالک سے پوچھا کہ بھائی یہ تو تھری سٹار ہوٹل نہیں، کہنے لگا نہیں ہے یہ ہمارے گاہگوں نے ہمیں اعزاز بخشا ہے کہ ہم ہوٹل کے ساتھ تھری سٹار لگا دیتے ہیں۔ خیر میں یہاں صرف سونے کی جگہ چاہتا تھا، جو کہ تھی سو کچھ اور نہ سوچا، کمرے میں سامان رکھا ، کچھ کمر سیدھی کی، اور تازہ دم ہو کر استنبول کی سیر کو چل دیا۔

 

سلطان احمد نامی اس علاقے میں تین اہم تاریخی جگہیں ہیں، جنہیں ضرور دیکھے جانے والی جگہوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔

بلو مسجد، یا نیلی مسجد

استنبول کو مسجدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اور یہاں بہت سے مسجدوں کا طرز تعمیر ایک جیسا ہی ہے، جس میں ایک درمیانی گنبد اور سائیڈوں پر مینار نمایاں نظر آتے ہیں، بلو مسجد کو دیکھنا نہیں پڑتا یہ خود آپ کو دکھاتی ہے، بلو مسجد اور حاجیہ صوفیہ جسے آیا صوفیہ بھی کہا جاتا ہے ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں، اور یوں یہ سکوائر سیاحوں سے ہمیشہ بھرا رہتا ہوں، صبح سے لیکر رات دیر گئے تک یہاں لوگ موجود رہتے ہیں، دیکھنے والوں میں ہر طرح کا سیاح نظر آتا ہے، حجاب، شرعی نقاب سے لیکر ، منی سکرٹ تک ہر قسم کا لباس پہنے لوگ مشرق و مغرب کے اس سنگم کی کہانی کہتے نظر آتے ہیں، خوبصورتی یہ ہے کہ کوئی کسی پر آوازے نہیں کستا، کسی کا لباس دیکھ کر دفعہ دور نہیں کرتا، ہاں اتنے بڑے شہر میں اتنی زیادہ سیاحتی آبادی والی جگہ پر ہر نظر پر پہرہ تو نہیں بٹھایا جا سکتا ، تاڑنے والے تو یورپ کی ننگ دھڑنگ گلیوں میں بھی نگاہیں سینکنے سے باز نہیں اتے تو ایسوں کا شمار کیا، لیکن مجموعی طور پر ایک امن بھری، اخلاق بھری فضا آپ کو ایک اسلامی شہر کے منصفانہ مزاج سے متاثر کرتی ہے، یہاں مسجدیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، اس لئے غیر مسلم سیاح بھی اسلامی آرکٹکچر سے نگاہیں خیرہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے احباب کے لئے موزوں لباس کی شرط عائد کی گئی ہے، ہر مسجد کے دروازے کے ساتھ چادریں دستیاب ہیں جو آپ باندھ سکتے ہیں، اوڑھ سکتے ہیں۔ درجنوں کے حساب سے گوریاں اپنے مغربی لباس کے اوپر ان چادروں کو اوڑھتی ہیں اور اپنی اسلامی شناخت کی ایک سیلفی اتارتے دکھائی دیتی ہیں۔ سچ پوچھئیے تو اہل ترکی کی اس ادا پر ہی مجھے بے حد پیار آیا، میں نے ایسے بے شمار چہرے پڑھے، جنہوں نے شاید زندگی میں پہلی دفعہ اس نقطہ نظر سے خود کو ڈھانپا ہو گا، شاید ہمیں ایسا محسوس نہ ہو، لیکن ان چہروں پر روحانیت اور کا ایک رنگ اترتا ضرور دکھائی دے رہا تھا۔ دوران نماز ٹورسٹ مسجدوں میں داخل نہیں ہو سکتے تا کہ نماز پڑھنے والوں کی نماز میں خلل نہ آئے۔

آیا صوفیہ یا حاجیہ صوفیہ

بلو مسجد کے بالمقابل ایک اور شانداز عمارت موجود ہے ، جسے آئیہ صوفیہ کہا جاتا ہے، اس کو حاجیہ صوفیہ کی طرح لکھا جاتا ہے، یہ میوزیم پہلے کسی وقت میں ایک چرچ تھا جسے بعد میں مسجد میں تبدیل کردیا گیا، اس عمارت کے اندر جانے کے لئے آپ کو ٹکٹ خریدنی ہوتی ہے جو چالیس لیرے کے لگ بھگ ہے، اگر آپ کا استنبول میں قیام تین روز تک کا ہو اور آپ زیادہ جگہہ دیکھنے کے خواہشمند ہوں تو استنبول کارڈ نامی ایک پاس بنتا ہے جس کی مدد سے آپ پانچ بڑے میوزیمز کو دیکھ سکتے ہیں، عممومی طور پر ایسے کارڈ کو کسی بڑی جگہہ جیسے ائیرپورٹ یا ٹورسٹ انفارمشن سنٹر سے خرید لینا چاہیے کیونکہ جب میں نے حاجیہ صوفیہ کے کاونٹر پر اس کارڈ کی بات کی تو پتہ چلا کہ ان کے سسٹم میں کوئی مسئلہ ہے جس وجہ سے وہ یہ کارڈ نہیں بیچ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد ٹوپکائی میوزیم اور قلعہ کے لئے بھی آپ کو لگ بھگ چالیس لیرے ایک اور داخلہ فیس بھرنی ہوتی ہے اس بہت بہتر ہے کہ آپ استنبول کارڈ لے لیں۔ لوگ صبح نو بجے ہی اس میوزیم کے باہر قطار بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، ابھی قطار میں کچھ چار پانچ لوگ ہی جمع تھے کہ میں بھی وہاں چلا گیا، یہ عمارت واقعتا دیکھنے کی چیز ہے، بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی دیواریں، اونچے اونچے دروازے اور ایک بلند و بالا ڈوم پرانے زمانے کی ایک طلسماتی کہانی محسوس ہوتا ہے، اس عمارت کے اندر عیسایئت کے متعلق کچھ پنٹنگز اور میوزیکس اب بھی دیوار پر محفوظ ہیں، بلڈنگز کے اندر  امامت والی محراب اور دیوار پر عربی آیات، کلمہ طیبہ اور آنحضورﷺ کا نام نامی ، خلفائے راشدین کے نام کے بڑے سائز کے فریم لگے ہوئے ہیں۔ جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ فریم کہیں بعد میں لگائے گئے ہوں گے۔ بہرحال یہ خوبصورت عمارت اندر سے بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، اسی عمارت کے بغلی دروازے کے باہر ایک مرمر کی تختی نصب ہے جس پر حضورﷺ کی یہ حدیث لکھی ہے جس کا مفہوم یہ کہ وہ فاتح خوش نصیب ہو گا جو استنبول کو فتح کرے گا۔

 

ٹوپکائے کا قلعہ اور میوزیم

 

حاجیہ صوفیہ سے کچھ ہی فاصلے پر یہ تاریخی قلعہ اور میوزیم واقع ہے، ویسے تو اس قلعہ سے متصل باغ بھی قابل دید ہے، شام کو یہاں مقامی لوگوں اور سیاحوں کا خوب رش رہتا ہے، قلعہ کے اندر بھی باغیچے، دالان، محراب، گنبد، اسلامی طرز تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لیکن اس قلعہ میں سب سے زیادہ پرکشش اس کا مختصر سا میوزیم ہے، اس چھوٹی سی جگہ پر اسلامی تاریخ کی اتنی زیادہ اشئیا موجود ہیں کہ ایک ایک چیز کو دیکھنے پر پہروں صرف کئے جا سکتے ہیں، آنحضورﷺ کی تلوار مبارک، خلفائے راشدین کی تلواریں، عصائے موسیؑ،  دستار حضورﷺ، اور مختلف انبئیا سے منسوب اشئیا اس میوزیم کا حصہ ہیں، اس چھوٹے سے حصے کی زیارت ہی سارے استنبول کی سیر پر بھاری ہے۔ اس کے علاوہ بھی قلعہ میں دیکھنے والی کئی اور اشئیا بھی ہیں جیسے سلاطین سلطنت عثمانیہ کی تصاویر کا میوزیم، شاہی حرم ، شاہی کچن اور اس کے ظروف، وغیرہ۔

 

دریائے باسفورس کی سیر ۔

جیسے ہماری سڑکوں پر کنو کا جوس بکا کرتا ہے ایسے ہی باسفورس کے کنارے لاوڈ سپیکرز پر لوگ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ باسفورس کی سیر دس لیرا، دریائے باسفورس کی سیر بارہ لیرا، ویری نائس ٹور بارہ لئیر، ویری گڈ ٹور بارہ لیرا۔ حاجی صوفیہ اور ٹوپکائی کے قلعہ کی سیر نے کافی تھکا دیا تھا اس لئے سوچا کہ کچھ دیر آرام کیا جائے، بس لی اور گلاٹا ٹاور کی طرف جانے اس جگہ پر آ گیا جہاں سے باسفورس کی سیر کو جہاز اور کشتیاں روانہ ہوتی ہیں، ڈیڑھ گھنٹے کے اس ٹور میں   باسفورس کے کنارے بسے ہوئے شہر کے خدو خال کا بخوبی جائزہ لیا جا سکتا ہے، شہر کی عمارتوں میں سر اٹھائے مسجدوں کے مینار، فلک بوس عمارتیں، اور گنجان آباد شہر ، ٹریفک کی چہل پہل، دونوں اطراف سیر کرانے والے جہازوں اور کشتیوں کی بھرمار آپ کو ایک زندہ شہر کی تصویر کشی کرتی ہے۔ ان جہازوں میں چائے کافی اور سوفٹ ڈرنکس کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور عمومی طور پر کچھ حصہ کیبن کی صورت اور کچھ حصہ کھلا ہوتا ہے تا کہ موسم کے سرد گرم یا بارش سے بھی محفوظ رہا جا سکے۔  بارہ لیرا کا یہ ٹور اپنے وقت کے حساب سے ذرا بھی مہنگا نہیں ہے، اس سے ملتے جلتے ٹور یورپ کے بہت سے شہروں میں ہیں جہاں ان کی قیمت اس سے کئی گنا زیادہ ہو گی۔

 

گرینڈ بازار

اس بازار کا تذکرہ استبول کے بارے ہر ایک تحریر سے ملتا ہے، اس بازار کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے، اس کو ایشیا کے سب سے بڑے اور پرانے کورڈ بازاروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے، یہاں پلاسٹک کے کھلونوں سے لیکر سونا اور جواہرات کی دکانیں موجود ہیں، اس بازار کی ہیت انار کلی بازار کی سی ہے، تنگ گلیاں اور لوگوں کی آمدورفت لیکن اس بازار میں صرف پیدل لوگ ہی داخل ہو سکتے ہیں، دکاندار دیسی لوگوں کی طرح دکان کے دروازوں پر گاہکوں کو خوش آمدید کہتے نظر آتے ہیں، ترکش چائے بیچنے والے ہاف سیٹ ، فل سیٹ طرز کی پلیٹوں میں قہوہ سجائے ادھر ادھر جاتے نظر آتے ہیں،  اس بازار کی کئی ایک گلیوں سے کئی صدیاں پرانے نقش و نگار کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے، انہی گلیوں کے چوراہوں میں بڑے بڑے پانی پینے والے کولرز کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، تا کہ خریدار ان سبیلوں سے پیاس بجھا سکیں۔ اسی بازار سے کچھ فاصلے پر استنبول کا مصالحہ بازار بھی واقع ہے جس کی ہیت اسی بازار سے ملتی جلتی ہے ، وہاں پر بھی اسی طرز کی دکانیں ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر دکانیں مصالحہ جات سے متلعق ہے۔  میں نے اور بھی کئی جگہوں پر بازار کے اس تصور کو عملی صورت میں دیکھا، اور مجھے اس طرح کی مارکیٹس ملکی معیشت کے لئے ایک صحت مند رویہ لگیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر دکاندار چھوٹے چھوٹے سٹالز یا دکانوں کے مالک تھے اس کا مطلب ہے دولت کی تقسیم زیادہ لوگوں میں ہو رہی ہے۔

 

استقلال سٹریٹ

دریائے باسفورس کے پل پر سے گلاٹا ٹاور کی طرف آئیں تو شہر کے اس اونچے حصے کی طرف جانے والی ایک لمبی گلی آغاز ہوتی ہے، جس کا اختتام مصطفے کمال پاشا کے انقلاب کی یادرگار کے ساتھ ہوتا ہے، یہ گلی یورپ کی واکنگ سٹریٹ طرز کی گلی ہے جس کے دونوں اطراف مختلف برانڈز کی دکانیں ہیں، یہاں پر ترکش میوزک پیش کرنے مقامی فنکار، اپنے دیگر کمال فن کا مظاہرہ کرنے والے شعبدہ باز، لوگوں کو مجمع کئے ہوئے ملتے ہیں، مقامی لوگوں اور سیاحوں کا رش اس گلی کی شان بڑھائے رکھتا ہے۔ یہیں پر ایک دو نو سر بازوں کو دیکھنے کا بھی موقع ملا، جو بڑی محبت سے آپ پاکستان کی محبت جتلاتے ہیں اور آپ کو شراب خانے یا کسی طوائف کے گھر تک لے جانے کی دعوت دیتے ہیں۔

 

استبول کے ہوائی اڈے پر کئی بار جانے کا اتفاق ہوا تھا ، لیکن جو بات استنبول کی گلیوں میں ہے اس کو بیرون استنبول محسوس نہیں کیا جا سکتا، سچ یہ ہے کہ استبول خوبصورتی ہے جو آپ کی تشنگی کو سیراب ہونے کا موقع دیتی ہے اور کچھ دیر بعد پھر طلب بڑھا دیتی ہے، یہاں کی مٹھائیاں، بازار، قہوہ، شوارمہ، اور سب سے بڑھ کر کھلے دل والے لوگ آپ کا دل موہ لیتے ہیں، استبول دل میں بسنے کی جگہ ہے، اس لئے اگر آپ ایک بار استنبول ایک بار ہو آئیں تو اس کی یادوں کو بھلانا بہت مشکل ہے، میرے پیارے استنبول پھر ملیں گے۔

استنبول کا ویڈیو بلاگ

سستی ٹکٹوں کے لئے یہ ویب سائٹ اچھی ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.