بے لاگ کی تیاری کے دوران مجھے شدت سے احساس ہوا کہ اچھا لکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جیسے جعفر حسین کے جملوں کی کاٹ، عمر بنگش کی سلاست، علی حسان کی منظر کشی، فہد بھائی کے الفاظ کا چناو، ثروت بہن کی جزئیات نگاری، کوثر بیگ کی مکالمہ نگاری، سید یاسر کی بر جستگی، خاور کی شگفتگی، ریاض شاہد کا مطالعہ، ۔۔۔۔اگر میں چونتیس ناموں کی فہرست سامنے رکھوں تو مجھے لگتا ہے سب مجھ سے اچھا لکھنے والے، اور کچھ ایسے ہیں جو اچھا لکھنے والوں سے بھی اچھا لکھنے والے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جن کے الفاظ موتیوں میں تلنے لائق ہیں۔
مجھے لگا کہ ان کی بازار میں کوئی قدروقیمت ہی نہیں، ، ان پھولوں پر نہ کوئی تتلی نہ کوئی بھنورہ، صحرا کی اذانیں اور ویرانوں کے پھول ، جس کو نہ کوئی سنے نہ کوئی سونگھے۔۔۔۔۔۔۔
بس وقت کے اس لمحے ایک خیال آیا کہ بلاگنگ کو ایک پراڈکٹ بنایا جانا چاہیے، تبھی اس کے خریدار آئیں گے، اب سوال یہ تھا لوگ کیونکر اکھٹے ہوں، اور آسان ترین حل تھا کہ پہلے لکھنے والے ہی اکھٹے کیوں نہ ہو جائیں سو ایسوسی ایشن کی بات کی۔۔احباب نے اپنی اپنی رائے دی۔۔۔۔۔۔اکثریت خاموش تھی اور بولنے والوں کو میری بات پسند نہیں آئی، لیجئے ہم بھی چھوڑے دیتے ہیں،
لیکن میرا ماننا یہی ہے کہ ایک دوسرے کا سہارا بننا ہو گا، ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملانی ہو گی۔۔۔وگرنہ یہاں ہماری کچھ شنوائی نہ ہو گی۔۔۔
شاید جتنا دور میں دیکھ رہا ہوں، اتنی دور دیکھ کر لوگ اپنی آنکھیں نہیں تھکانا چاہتے، شاید میری اپنی ہی نظر کا دھوکا ہو۔۔۔ ایک ایسوسی ایشن بنا لینا ایک بہت چھوٹی سی خواہش ہے، دس بارہ ہم خیال لوگوں کو عہدوں کی چکاچوند میں گھیر گھار کا ایک تنظیم کا نام دے لینا بھی کچھ دشوار نہیں، لیکن اس تنظیم سے نظم کا رشتہ جوڑنا، احباب کو ساتھ ملا کر طے شدہ منزل تک پہنچانا یقینا دشوار ہے۔۔۔۔یہ ناممکن ہرگز بھی نہیں، لیکن میری زندگی کے طے شدہ کاموں میں اتنی فرصت بالکل بھی نہیں کہ تنظیم کے فضائل سے محنت کا آغاز کروں۔۔۔یہ بلاگ مٹنے والا تو نہیں ۔۔۔۔میرا یقین ہے کہ تنظیم کے بغیر کبھی کوئی دور تک نہیں جا پایا۔۔۔۔وہ وقت دور نہیں جب لوگ ایک دوسرے کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اکٹھا کریں گے۔۔۔۔۔