ابھی سترہ اگست دوہزار پندرہ کو کوپن ہیگن کے ایک اسلامی سنٹر پر کسی نے آگ لگانے کی کوشش کی ، پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا اور اس کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ قریبا دو تین ماہ پہلے کوپن ہیگن میں واقع مسلمانوں کے قبرستان میں قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ سو سے زائد قبروں کے کتبے اکھاڑ دئے گئے۔
اور دو ہفتے پہلے ڈنمارک کے ایک اور شہر اوڈنسے میں بھی مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا ہے۔
ایسے واقعات آج کی دنیا میں کہیں نہ کہیں ہو رہے ہیں۔ ان سب واقعات میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والے دہشت گرد نہیں بلکہ کسی ذہنی مرض کے تابع ہو کر ایسا غیر انسانی قدم اٹھاتے ہیں۔ ۔۔۔ناروے میں درجنوں افراد کے قاتل کا تعلق شدت پسند گروہوں سے ہونے کے باوجود بھی اس کو بھٹکا ہوا ایک فرد ہی سمجھا گیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بم کی بات نہیں ، درحقیقت اس کا نام ہی اس کو رسوا کرنے کا سبب بنا، لوگوں کی رائے یہ بھی رہی کہ اگر یہی کام کسی عیسائی بچے نے کیا ہوتا تو اس کو انعام وکرام سے نوازہ جاتا ، اور دوسری طرف اس واقعہ کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بعد میں اس قسم کے واقعات پر کف افسوس ملنے سے بہتر تھا کہ ایسا ہوا، اور انہوں نے سکول کی تعریف بھی کی کہ انہوں نے اس قدر فرض شناسی کا ثبوت دیا۔۔۔ایک لکھنے والے نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ کسی زیادہ امن پسند مذہب میں داخل ہو جائیں اور اسلام کو خیر آباد کہہ دیں۔۔۔اور یہ کہ اسلام کا نام مسلمانوں نے ہی خراب کر رکھا ہے وغیرہ
ان سب واقعات میں کردار بدل رہے ہیں اور کہانی ملتی جلتی ہے۔ ۔۔۔مسلمانوں سے ایسی کیا خطا ہوئی کہ ایک دنیا ان کی دشمن بنی پھرتی ہے ۔ ۔۔اگر یہی رویہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب مسلمان بچوں کے سکولوں کے بستے روز تلاشی کے بہانے سکولوں کے دروازوں پر روک لئے جائیں گے۔ وہ دنیا جو خود کو مہذب اور پر امن کہتی ہے۔ وہ اپنے جیسے پرامن لوگوں سے اسقدر خوف زدہ کیوں ہے؟ کیا ان سے مختلف رنگ اور مذہب رکھنے والے انسان نہیں؟
یہ بلاگ کچھ لنکس کےاضافے اور ترامیم کے ساتھ ڈان اردو میں شائع ہو چکا ہے۔ اس کا لنک یہ رہا
کیا مسلمان ہونا دہشتگرد ہونا ہے؟
ایک سوشل میڈیا پیج پر سے کچھ کمنٹس ملاحظہ ہوں۔
https://www.facebook.com/ajplusenglish/videos/619769144831263/
|
Shared with:
Public 3,833,047 Views |