بے لاگ ایک خواہش تھی جو پوری ہو گئی، اللہ تیرا شکر ہے، یہ کام کوئی بھی کرتا تو ایسے ہی آسانی سے ہو جاتا، لیکن شاید یہ میرے حصے میں لکھا گیا تھا،
دوستوں سے درخواست کہ تحاریر بھیجں، کچھ دو چار نے بھیجں، اور باقی اکثر نے آخری تاریخ کا انتظار کیا، کچھ دوستوں کے بلاگ کچھ دوستوں نے بھیج دئیے ، اور کچھ بلاگرز کو ان کے دوستوں نے کہا اور یوں کتاب میں چھپنے والے بلاگرز کے بلاگ اکٹھے ہو گئے، میں ان یونی کوڈ لنکس کو محترم حافظ زاہد صاحب کو بھیجتا رہا اور انہوں نے ان پیج کی فائلیں بنا کر واپس کردیا، کچھ لوگوں نے تعارف بھیجے اور اکثریت کے میں نے خود سے ہی لکھ چھوڑے، اور پھر واپس حافظ زاہد صاحب کو بھیج دئیے جنہوں نے اس کو کتابی شکل دے دی، ۔ کتاب کی پہلی اشاعت کے لئے اخراجات کا تخمینہ نوے ہزار کے لگ بھگ لگایا جا رہا تھا، لیکن عین آخری لمحات پر فخر نوید کی مدد سے ہم ساجد شیخ صاحب کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو ئے، اور وہ ایسے کھلے دل سے ملے جیسے جنم جنم سے آشنا ہوں، پہلی ملاقات میں ہی ہم نے طے کر لیا کہ اب کتاب کا باقی کام ساجد شیخ ہی کریں گے۔
دن کتنے تھے 15 فروری کو کتاب کے معاملات طے ہوئے اور 28 فروری کی تقریب رونمائی رکھ دی گئی۔ یہ مشکل کام تھا، مگر ساجد شیخ اور ان کی ٹیم نے مل کر اسے ایسا آسان کردیا کہ سب لوگوں کو لگا کہ یہ تو کوئی بڑا کام نہ تھا، کتاب کی تقریب رونمائی اور بلاگرز کی عوامی پذیرائی اسی کتاب کا لازمی حصہ تھی، تقریب میں لوگوں کو بلانے کے لئے کتاب ہمارے ہاتھ میں نہ تھی، ایک صحافی دوست نے کہا کہ ایسا رسک نہ لیں پہلے کتاب آ لینے دیں پھر رونمائی کا اعلان کر دیجئے گا، لیکن ہمارے سانجھے دار خاور کھوکھر کو 29 فروری کو جاپان جانا تھا اس لئے اس سے زیادہ تاخیر ممکن نہ تھی، سو ہم اپنے ارداے پر ڈٹے رہے، تقریب کی جگہ کونسی ہو گی، پریس کلب ہماری پہلی کوشش تھا لیکن اس کی فیس اتنی زیادہ تھی کہ اور جگہ ڈھونڈنے پر مجبور ہو گئے، لاہور کے کچھ دوستوں سے درخواست کی لیکن کچھ بات نہ بنی، ایسے میں جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے کلاس فیلو اویس ملک مددگار ہوئے اور الحمرا ہال کی جگہ کی دستییابی ممکن ہو سکی ، اب یہ کہ مہمان خصوصی کون ہو گا جو ہمارے جذباتی منصوبے پر آنکھیں بند کرکے چلا آئے گا، اس خیال کو عمل میں لانے کے لئے ہمارے دوست شہباز سعید آسی سے ذاتی درخواست کی کہ اپنے والد سعید آسی صاحب سے درخواست کیجئے، اور انہوں نے ہمارا مان رکھتے ہوئے سعید آسی صاحب کو اس پروگرام کے لئے قائل کر لیا، اب اور مہمان کون ہوں گے، لاہور میں اس پروگرام کی مدد کون کرے گا ، حافظ زاہد صاحب نے پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کو ساتھ ملانے کا مشورہ دیا، فرخ شہباز وڑائچ سے بات کی اور انہوں نے ہماری معاونت کی حامی بھر لی،اور محترم سلمان عابد اور گل نوخیز اختر کو بلانے کی ذمہ داری ان پر ڈال دی گئی، شہزاد چوہدری چئیر مین فیڈرل یونین آف کالمسٹ سے ہم نے درخواست کی اور وہ بخوشی آنے کو تیار ہو گئے، ہمارے دوست سید بدر سعید پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بانی رکن اور صدر ہیں ان سے درخواست کی انہوں نے آنے کی حامی بھر لی، محترم کاشف بشیر خان صاحب کی مہربانیوں کی کیا بات کی جائے، فیس بک کے توسط ایک پیغام بھیجا اور وہ پروگرام کو رونق بخشنے کو تیار نظر آئے، محترم عامر ہاشم خاکوانی صاحب کو فیس بک کے ہی توسط پیغام بھیجا اور انہوں نے بھی کمال شفقت کا مظاہرہ کیا۔۔۔۔لیجئے اب مہمانان گرامی کی فہرست تیار ہوئی، اب بلاگرز کیسے اکھٹے کئے جائیں، فون کھڑکائے گئے، ایک دو نے تو بے لاگ بتا دیا کہ ایک پروگرام کے لئے لاہور آنا ممکن نہ ہو گا، اور کچھ نہ انتظار کے ایسے دھاگے سے باندھا کہ آخری لمحے تک سوچتا رہا کہ اب آئے کہ اب آئے۔
ایک عجیب پریشانی یہ ہو رہی تھی کہ اکثریت آنے کا فائنل نہیں کر رہی تھی، بس جی دیکھتے ہیں، بتاتے ہیں، اور مجھے پریشانی یہ ہورہی تھی کہ اگر آخری دن یہ سارے نہ آئے تو کیا بنے گا۔
پھر کتاب کے معاملات۔۔۔۔خدانخواستہ اگر کہیں بجلی کی روانی میں کوئی گڑبڑ ہو گئی تو کیا بنے گا؟ ہال میں ریفریشمنٹ کے انتظامات کیا ہوں گے، کیا اتنی دور سے آنے والے بلاگرز کو چائے پر ہی ٹرخا دیا جائے گا؟ اور الحمرا جیسی مصروف جگہ پر باہر کی عوام کو ہم کیسے روک پائیں گے۔ میں انہی پریشانیوں میں الجھا تھا کہ کالمسٹ کونسل اور یونین کی پرانی محبتوں کی وجہ سے کچھ معاملات بگڑنے کا اندیشہ نظر آنے لگا اور ایک وقت مجھے ایسا لگا کہ سب کو منانے کے چکر میں دونوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ عین اسی وقت میں خالہ زاد بھائی کی شادی کا معاملہ بھی چل رہا تھا، اگر آپ پردیس میں پانچ سال گذار آئے ہوں تو ایسے ایونٹس میں جانے کی جو طلب ہوتی ہے وہ سمجھ سکتے ہیں۔ مہمان کالم نگاروں کو کتاب کی سافٹ کاپی پہنچا دی گئی تھی، لیکن پروٹوکول کا تقاضہ تھا کہ ہارڈ کاپی پروگرام سے پہلے پیش کر دی جائے، اس لئے 27 فروری کو لاہور واپس گیا، خاکوانی صاحب سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ چھٹی پر ہیں، حالانکہ دن پہلے سے ہی طے ہو چکا تھا، ایک پریشانی شروع ہو گئی کہ پتہ نہیں آئیں گے کہ نہیں؟ فرخ شہباز سے رابطہ کیا کہ سلمان عابد اور گل نوخیز اختر کو کتاب دینے جانا ہے، مگر سارا دن انہوں نے فون کا جواب نہ دیا اور شام میں راطہ ہوا تو کہا کہ میں پوچھ کے بتاتا ہوں، اور پھر نہ بتایا یعنی رات گئے تک فون کرتا رہا لیکن جواب ندارند۔۔۔۔کاشف بشیر صاحب سے ملاقات طے تھی مگر وہ بھی کسی جگہ ٹریفک میں پھنس گئے اور ملاقات نہ ہو سکی،
ادھر سے تقریب کا فلیکس ابھی چھپنا تھا، مہمانوں کے کھانے کے انتظامات کو بہتر کرنے کے لئےکارڈز بنائے گئے تھے وہ چھپنے تھے، اس لئے ساجد بھائی کے پیچھے رائل پارک پہنچا، وہیں پر معاونت کرنے کے لئے بلال ایم بلال تشریف لے آئے، کچھ حوصلہ ملنے کا آغاز ہوا کہ اب اکیلا نہیں رہا، ان کے ساتھ مل کر سعید آسی صاحب کے دفتر گئے ، ان کو کتاب پیش کی اور حوصلہ ہوا کہ ایک مہمان تو آئے گا ہی۔۔۔۔۔پھر پتا چلا کہ ریاض شاہد صاحب تشریف لے آئے ہیں، ان کے آنے سے پہلے بلال اور ساجد صاحب سے مل کر پروگرام کی ترتیب پر کچھ باتیں ہوئیں۔
پھر ہم ریاض شاہد سے ملنے فورٹریس سٹیڈیم چلے گئے، ملنے سے زیادہ میرے ذہن میں تھا کہ پکا کر آوں کہ آ گئے ہیں۔ ۔۔اسلم فہیم صاحب شروع دن سے بہت مددگار نظر آئے ، ان کا اردہ کسی دن بھی متزلزل نہ ہوا ، انس اعوان سے بھی ہر رابطہ حوصلہ افزا رہا، لیکن کچھ دوست ہم درمیان میں ڈراتے بھی رہے کہ ہم تو کسی فلاں کی شادی پر چلے جائیں گے وغیرہ۔۔۔خیر بلاگرز کی شمیولیت کے بارے میں آخری لمحے تک پریشان تھا کہ کون آئے گا ۔۔۔۔لیکن خدا تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ان ظالموں ۔۔۔مسکراہٹ۔۔۔ کے دل میں کچھ محبت پیدا کر دی۔
رات ساری رات پریشانی میں سو نہ پایا کہ صبح ہو گا کیا؟ صبح ساڑھے آٹھ بجے سلیم صاحب چائنا والے انہوں نے چائنا کے روانہ ہونا تھا ، میری خواہش تھی کہ ان کو کتابیں پیش کروں اس لئے ان کے پاس ڈائیوو جا پہنچا، وہاں سے ان کو ائیرپورٹ چھوڑا اور اپنے بھانجے کے ہوسٹل جو سی ایم ایچ لاہور فائنل ائیر کا طالب علم ہے کہ پاس گیا کے ۔۔۔۔اگر سامعین کم پڑ گئے تو دوستوں کو تیار رکھنا۔۔۔۔
اتنے میں پتہ چلا کہ خاور صاحب الحمرا آ گئے ہیں، یہ میری اور خاور کی پہلی ملاقات تھی، خاور سے ٹیلی فون پر بات سے جو تصویر میرے ذہن میں بنتی تھی اس میں صرف ایک توند والا پیٹ کم تھا ورنہ وہ تقریبا ویسا ہی تھا۔۔۔۔لیجئے ہال میں فلیکس سجائی گئی، فخر نوید بھی تھوڑی دیر بعد تشریف لے آئے، پھر غلام عباس، پھر بلال ایم بلال، پھر میرا مددگار میرا بھانجا سعد، پھر میرے زرعی ڈیپارٹمنٹ سے فیصل رضا، پھر معظم امتیاز، پھر اسلم فہیم، پھر نجیب عالم، ۔خواتین بلاگرز بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں ثروت بہن اپنی فیملی کے ساتھ سرگودھا سے تشریف لائیں تھیں اور نسرین غوری نے تو کمال ہی کر دیا کراچی سے آ کر سب کے دل جیت لئے۔۔۔اور پھر سارے ہی آ گئے، پونے ایک بجے مہمانوں کا کچھ پتہ تھا کہ کہاں ہیں، سب کہہ رہے تھے کہ رستے میں ہیں، سب سے پہلے شہزاد چوہدری صاحب آئے پورے وقت پر آ گئے ، پھر مہمان خصوصی سعید آسی صاحب، پھر سلمان عابد صاحب جو پروگرام شروع ہونے کے بعد پہنچے، پھر کاشف بشیر خان بھی جلوہ افروز ہوئے، پھر گل نوخیز اختر بھی نمودار ہوئے، اور سب سے آخر میں عامر خاکوانی آئے۔۔۔۔۔۔
ہال کچھا کچھ بھر چکا تھا، اسی کرسیاں لگائی گئی تھیں جو کم پڑ گئی تھیں، میرے یونیورسٹی کے دوستوں میں عمران ایوب فیملی سیمت آئے اور پھولوں کا تحفہ بھی لائے، ایسا ہی پھولوں کا ایک تحفہ ہمارے بھانجے کے کلاس فیلوز بھی لائے، لاہور کے پرانے دوستوں ساجد چوہدری، ذوالفقار، فیاض فردوسی بھی حوصلہ بڑھانے آئے ہوئے تھے، ۔۔۔۔
پھر اس کے بعد کیا ہوا مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔۔۔۔۔آپ اسے مذاق سمجھ رہے ہوں گے، لیکن یہ سچ ہے۔۔۔۔۔اسی لوگوں کے کھانے کے انتظامات تھے اور مجھے اور ڈر شروع ہوا کہ کہیں کھانا نہ کم پڑ جائے، پریس کے کیمرہ مینوں کو اپنی پڑی تھی کہ وہ مجھے سے پریس ریلیز بنوا کر مال بنانے کے چکر میں تھے، مجھے فی البدیع مہمانوں کے شایان شان کچھ باتیں بھی کرنی تھیں، پھر جب بھی کچھ معاملہ ہوتا ہر شخص مجھی تک پہنچتا۔۔۔کیونکہ منتظم بھی میں ہی تھا۔۔۔۔۔
اسی بھاگ دوڑ میں کچھ چیزیں یاد رہیں اور کچھ بھول گئیں۔۔۔۔ایسے میں مجھے یاد آیا کہ بہن کوثر بیگ کا ایک پیغام تھا جو لوگوں تک پہچانا تھا، لیکن وہ تو فیس بک پر تھا، پھر اپنی طرف سے جو اس کا مفہوم تھا ان کے نام پر کہہ دیا، ۔
خیر جو ہوا سو ہوا، میرے حساب سے مناسب سا پروگرام ہو گیا، اس میں تکنیکی اعتبار سے کچھ خامیاں تھیں۔ جن میں سب سے زیادہ رابطے کی کمی تھی۔ نجیب صاحب نے لائیو سٹریمنگ کر کے کمال کیا لیکن ان سے یہ پہلی ملاقات تھی، جس میں ان سے کوئی بات بھی نہ ہو سکی، پروجیکٹر میں لے آیا لیکن ایکسٹرا لیڈ نہ تھی جو بازار سے منگوائی گئی، لاہور کے بلاگرز آخری لمحوں پر ہی آئے اور شکریہ کہ وہ آ ہی گئے۔۔۔اس لئے کسی سے بات بھی ہو پائی۔
ایک آرگنائزیشن کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ کسی بھی تقریب کو کرنے کے لئے انتظامات کی تقسیم میں
استقبالیہ۔
ہال کی انتظامیہ
کھانے کے انتظامیہ
سٹیج کی انتظامیہ
کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے ، بلال ایم بلال ، فخر نوید اور نجیب عالم ، معظم امتیاز ، وغیرہ نے بہت مدد کی، لیکن جو اہتمام کسی مربوط پروگرام میں ہوتا ہے ، اس کی کمی محسوس کی گئی۔
بلاگرز سے پہلی ملاقات کا پہلا تاثر۔۔۔
ریاض شاہد۔۔۔۔
خوبصورت شخصیت کے مالک، سیدھا دل میں گھسنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور قائدانہ صلاحتیں ملتے ہی نظر آنے لگتی ہیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔
خاور کھوکھر
دھچکا لگا کہ خاور اتنا سمارٹ ہے، ، سادہ سا آدمی، بالکل دیہاتی سیانے بابے سا، جو محبت سے ہر بات منوانے کا ہنر جانتا ہے۔
ساجد شیخ
قسمت سے یہی گلہ ہے مجھے، تو بڑی دیر سے ملا ہے مجھے۔۔۔۔
نجیب عالم
فلموں کے ظالم محبوب سا ، جسے پتا ہوتا ہے کہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلم فہیم
ایک اچھا منتظم، اپنے بات منوانے کا ہنر رکھنے والا، اور مسکراہٹ کا ہتھیار رکھنے والا
غلام عباس
درویش آدمی ، جس سے گھر میں برکت رہتی ہے
ملک انس اعوان
خواب دیکھنے والا، اور دور دیکھنے والا۔۔۔۔۔۔
ایم بلال ایم
اپنی تحریر سے ہٹ کر اچھا خاصا دیسی آدمی، کھل کھلا کر اپنی رائے کا اظہار کرنے والا
فخر نوید
ایک محنتی آدمی، اردو شاعری کے محبوب جیسا،
نسرین غوری
اپنے بلاگ کی طرح آوٹ سپوکن
ثروت عین جیم
اپنی بیٹیوں کی بڑی بہن،
پروگرام سے ہٹ محمد سلیم صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، وہ اپنی تحریر جیسے میٹھے ہیں، شیرے میں لتھڑے ہوئے، ۔۔۔
باقی کچھ بلاگرز کو دیکھا، ملا بھی لیکن کچھ رائے دینے کے اگلی دفعہ ملنا ضروری ہے، جو اپنے بارے میں رائے تبدیل کروانا چاہیں وہ پھر سے ملیں۔۔۔
نوٹ۔ یہ تحریر بلاگرز کے لئے لکھی گئی ، بہت سے احباب اور مددگار اس میں مذکور نہیں ہیں۔۔۔۔