کو کوئی گواہی اور گواہ بھی میسر نہیں آتا۔۔۔۔
وہ جو دنیا چلانا بہتر سمجھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ حکومتوں سے ٹکر لینا سرکاری آدمی کے کبھی بھی بس میں نہیں ہوتا۔۔۔۔یہاں تو ہر شاہیں کا سر کہیں نہ کہیں خم ہوا ہوتا ہے۔۔۔۔اور پاکستان میں جھتے بازی، گروہ بازی قسم کا نظام ہے۔۔۔جس میں اکیلا آدمی کبھی بھی گروہ کے مقابل نہیں آ پاتا۔۔۔۔۔کسی محمکہ کی انتظامیہ کا ڈھانچہ کرید کر دیکھئے ۔۔۔کوئی نہ کوئی گروہ چھایا ہوا ملے گا۔۔۔کہیں پر یہ تقسیم سیاسی ہے اور کہیں پر ذاتی۔۔۔۔۔لیکن اس نظام کی بڑی قباحت یہ ہے سچ کو سچ نہیں مانا جاتا ۔۔۔بس جو احباب کی منشاہے۔۔وہ ہی سچ ہے۔۔۔۔۔وہ جو اپنے ہم خیال لوگوں نے کہا بس وہی ٹھیک ہے۔۔۔۔ایسے میں کوئی ایک آدھ سر پھرا کہیں سے اگتا ہے۔۔۔اس کو پسند سبھی کرتے ہیں لیکن اس کا ساتھ کوئی نہیں دیتا۔۔۔۔
وہ جو ایک آدھ دن سے ڈھکے چھپے الفاظ میں طارق ملک کے استعفی کے متعلق سنا گیا ہے۔۔۔۔وہ طمانچہ ہے اس ساری مہذب دنیا کے منہ پر جس کا ہم خود کو ہمسایہ کہیتے ہیں۔ پاکستان کے کاروباروں کی منڈی میں کھلواڑ کرنے والے یہ بھیٹیرئے اب لوگوں کی دہلیزوں کو پھلانگنے کے درپے ہیں۔۔۔۔اب بھی وضع دار قسم کے درباری لکھاریوں کو حکومت سے کسی ایسے قدم کی امید ہے جس سے وہ لوگوں کی آنکھوں کا رخ کسی اور دھوئیں کی طرف کر پائیں۔۔۔۔اور ایسا ہی ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔۔
یہاں کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔ایک طارق ملک کے چلے جانے سے کون سے نظام درہم برہم ہوگا۔۔۔کس کے سر پر جوں رینگے گی۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔
کئی درباری اس کی کرسی سنبھالنے کے کب سے منتظر ہوں گے۔۔۔جہاں اخلاق کی بنیادی اقدار دم توڑنے لگیں اس معاشرے میں کچھ بھی ہو جائے بے حسی رواج پکڑتی جاتی ہے۔۔۔لڑکیوں کی لاشوں سے بالیاں نوچنے والےبدنصیبوں کی آنکھیں تو کب کی پتھر ہو چکیں۔۔۔۔مسجدوں کا تقدس پامال کرنے والے کس میراث کے پالن ہار ہوں گے۔۔۔۔چھوڑیے صاحب کچھ نہیں بدلے گا۔۔۔۔۔
طارق ملک ایک ننھا سا پتھر تھا جو اس بدبودار جوہڑ میں گرا۔۔۔۔کچھ چھنٹیں اٹھیں اور کیا بس۔۔۔۔۔ایک چائے کی پیالی کا طوفان سمجھئے۔۔۔۔ایک بھنور گرداب تھا۔۔۔۔۔۔یہاں سب برابر ہو جائے گا۔۔۔دو دنوں کی بات ہے۔۔۔۔۔۔جئے میرا لیڈر۔۔۔اور اس کے بچے اور ان کے بچے۔۔۔اور ہم غلام ابن غلام۔۔۔۔