
اس سال کیمپ کی جگہ مویشی منڈی کے قریب گئوشالہ کا محلہ تھا۔۔۔دور سے میں نے اس شخص کودیکھا تو مجھے حلیے سے ذرا مختلف لگا۔۔۔وہ ڈاکٹر کے قریب مریضوں کے لئے مخصوص کرسی پر بھی نہیں بیٹھا تھا۔۔۔وہ کھڑا تھا۔۔۔اس کے کپڑے موسموں سے آشنائی کے سبب کافی حد تک گھس چکے تھے اوردیہاتی انداز میں کپڑے کا ایک ٹکڑا جسے مقامی زبان میں صافہ کہتے ہیں ۔۔۔اس کے کندھے پر تھا۔۔۔اس کے ہاتھ میں سٹیل کا بنا ہوا ایک برتن تھا ۔۔جسے ہم ڈول کہتے ہیں ۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اسکو دوائی سے ہٹ کر کچھ مطلوب ہے۔۔۔میں نے اس آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ بوڑھا بولا باو جی دوائی نہیں دودھ چاہئے۔۔۔بس تھوڑا سا دودھ لے دیں۔۔۔میں اس کو پہلو میں لئے کیمپ سے باہر لے آیا۔۔۔ایک لمحے کو مجھے لگا کہ جیسے اس کی کہانی سچی نہیں۔۔۔جیسے ہماری گلیوں میں ہزاروں مانگنے والے۔۔۔بھیس بدل بدل مانگا کرتے ہیں۔۔۔۔وہ درجنوں جھوٹی سچ ملی کہانیاں ذہن میں گھوم گئیں۔۔۔لیکن اس کے کندھے پر رکھے ہاتھ سے جو پیغام مجھ تک پہنچا وہ جھوٹا نہیں تھا۔۔۔وہ ہڈیوں کا پنجر سا آدمی ۔۔۔اس ساری بھوک زدہ آبادی کا نمائندہ تھا جو چلا چلا کر کہتی ہے ہمیں دوائی نہیں دودھ چاہیے۔۔۔۔ایک لمحے کو یہ کیمپ مجھے اچھا نہیں لگا۔۔۔بس اس کو ایک دو وقتوں کے دودھ کے لئے چند روپے تھما کر اس ماں کی طرف لوٹ آیا ۔۔۔ جو دماغی امراض کے ایک ڈاکٹر کے پاس بیٹھی تھی ۔۔اور ڈاکٹر دماغی مریضہ کی والدہ کہہ رہا تھا۔۔۔ماں جی اس کا علاج بہت مہنگا ہے۔۔اس کو دردر لے کر پھرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔بس اس کا خیال رکھیں۔۔۔وہ پھول ایسی معصوم بچی ۔۔۔جس کی آنکھیں ایک سمت میں دیکھنے کی بھی متحمل نہ تھیں۔۔۔بس مسکرائے جا رہی تھی۔۔۔اور اس کی ماں۔۔۔جو ایک نئے ڈاکٹر سے نئی آس لگائے سر جھکائے اس حقیقت کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کی بیٹی بس اس لئے ٹھیک نہیں ہو پائے گی کہ اس کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں۔۔۔۔
ہمیں دوائی نہیں دودھ چاہیے۔۔۔۔۔۔۔ افسوس۔۔۔