فلم کا پلاٹ
فلم کی کہانی ایک ناول دی فائنسٹ آوور سے لی گئی ہے۔
فلم کی کہانی ایک ناول دی فائنسٹ آوور سے لی گئی ہے۔
The Finest Hours: The True Story of the U.S. Coast Guard’s Most Daring Sea Rescue
by Michael J. Tougias، & Casey Sherman
ایک کوسٹ گارڈ جو ایک مقامی لڑکی کی محبت میں بھی مبتلا ہوتا ہے، ایک طوفان میں گھرے ہوئے جہاز کے مسافروں کو واپس لانے کے لئے جان کی بازی کھیل جاتا ہے۔ اس کی ہونے والی بیوی شہر کے باقی لوگوں کی طرح اس کے اس اقدام کو خود کشی کے مترادف سمجھتی ہے۔ مگر آفیسر اس کی ایک نہیں سنتا۔ فلم کا ہیرو، لہروں کے جال سے نکل کر، اپنا کمپاس گنوانے کے باوجود جہاز کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، گو کہ اس کی کشتی میں بارہ لوگوں کی گنجائش ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ بتیس لوگوں کو زندہ سلامت واپس لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پھر ہیرو ہیروئین کی شادی ہو جاتی ہے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگ جاتے ہیں۔
ہمارا تجزیہ
اصل زندگی سے متاثر یہ فلم قابل دید ہے، جس میں عام زندگی کے ایک ہیرو کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ فلم میں محبت کی کہانی کو محسوس کیا جا سکتا ہے، جب فلم کا ہیرو ہیروئین سے شادی سے انکار کردیتا ہے، محض اس بنا پر کہ آنے والے طوفانوں میں اس کی جان پر کیا گذرے اس لئے وہ اپنی پسند کی لڑکی کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ ایک فقرہ تو بہت ہی خوبصورت لگا ، جب ہیروئین رات کے اندھیرے میں پانی سے ڈرتی ہے اور کہتی کہ مجھ رات سمے پانی سے ڈر لگتا ہے، اور ہیرو کہتا ہے کہ پانی کے نیچے اور پانی ہی ہے اور بس۔
یاس و امید میں لپٹی ہوئی کہانی جب تباہ شدہ جہاز کے مسافر زندگی و موت کی کشمکش کو خود پر بیتتا محسوس کرتے ہیں۔ خوف کے وہ لمحات جن میں ہیرو کی کشتی کو خطرناک لہروں کے پار جانا ہے اور سب مل کر ایک گانا گاتے ہیں۔
کوسٹ گارڈ کی کشتی میں سرچ لائٹ کو تھامے ہچکولے کھاتی ، ڈولتی اور ڈوبتی کشتی میں ہیرو کا ساتھ آواز لگاتا ہے کہ میری زندگی میں اس سے بہترین لمحہ نہیں آیا۔
بھئی ہمارے تو دل کو لگی ہے، وقت ملے تو دیکھی جا سکتی ہے۔