کیا فردوسی مرحوم نے ایران کو زندہ
خدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ
کیسے لفظوں کو لفظوں کے ساتھ رکھنا ہے، کس لفظ پر زور دینا ہے اور کون سے لفظ کو اٹھانا ہے، حسن ادائیگی کے سارے رخ ان کی تربیت میں تراشے جاتے تھے، بچوں میں انعام کے روپے بانٹنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔۔۔۔مجھے جو پہلا ایک روپیہ ان سے انعام ملا تھا، وہ اقبال کے اس شعر کے معنی بتانے پر تھا۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے
خوشخطی ، خوش الحانی، اور ہر خوبی کے قدردان تھے، تعریف کرنا اور کسی کو ذرے سے آفتاب کرنا انہیں آتا تھا۔ کتنے خاک کے ذروں کو انہوں نے پر لگا کر ہماری آنکھوں کے سامنے نیلگوں آسمان پر اڑایا تھا، کتنے جھجھکنے والوں کو تقریر کی لذت سے آشنائی بخشی تھی، کتنے کند ذہنوں کے دماغ کی بتی روشن کی تھی۔
ان کی کلاس میں بیٹھنے کا شرف حاصل کرنے والے جانتے ہیں کہ انہیں جادو یا ہیپناٹائیز قسم کا کوئی نہ کوئی حربہ ضرور آتا تھا، وہ جو کلاس میں ہوتے تو طالب علموں کی توجہ بھٹکنے نہ پاتی تھی ، وہ اپنی قوت گفتار سے لوگوں کو نئے جہانوں میں لے جانے کی طاقت رکھتے تھے۔
میری زندگی پر ان کی بے شمار عنایتیں رہی، میری کلاس کے اکثر لوگ شاید آج بھی نہ جانتے ہوں کہ ان کے ٹیوشن سنٹر پر مجھ سے کوئی فیس نہ لی جاتی تھی، ایک دن بلا کر کہنے لگے، باقی لوگوں کے ساتھ ٹیوشن پر آ جایا کرو اور پیسوں کی فکر نہ کرنا۔۔۔شعر یاد اگر کچھ مجھے ہیں تو ان اشعار کو دہرانے کا سرور انہیں کے توسط ملا، بیت بازی کے طفیل اقبال کی شاعری یاد کروادینا انہی کے مرہون منت تھا۔
میں سچ کہوں مجھے جتنی تھوڑی بہت اردو آتی ہے اس کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے، مجھ ایسے ہزاروں شاگرد ان کے لہجے میں شعر پڑھتے اور ان کے ذوق کے رنگ میں رنگ کر جب تک زندہ ہیں، رانا ظہور علیخاں صاحب کا ذکر چیچہ وطنی کی محفلوں رنگ بھرتا رہے گا۔ رانا صاحب اس چھوٹے سے شہر کے بہت بڑے آدمی تھے، جنہوں نے علم اور ادب کی محبت کو ہر طالب علم کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا، وہ علم یوں بانٹتے تھے کہ سیکھنے والوں کی طبیعت پر گراں نہ گذرتا۔۔۔۔۔چھٹی جماعت کے سالانہ نتائج کے صفحے پر لکھے اقبال کے شعر مجھے کبھی نہیں بھولتے۔۔
اس راہ میں مقام بےمحل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
وہ شعر جو شخصیات کے مضمون کے آخر میں لکھوایا کرتے تھے۔۔۔۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھو کہ اے لعیم
تو نے وہ گنج ہائے ، گراں نمایاں کیا کئے۔
اور ان کا لب و لہجہ ، ان کی باڈی لیگویج ، اپنی کمر پر ایک خاص انداز میں ہاتھ ٹکانا، کبھی کسی پریشانی میں دائیں کان کی لو کو کھجانا، حیرانی میں انگشت شہادت کو ہونٹوں پر رکھنا، ۔۔۔۔۔اگر میں کوئی مصور ہوتا تو اس عظیم استاد کو تصویر کردیتا۔۔۔۔۔لیکن کیا کہ
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔۔۔۔۔ہر کسی کو اپنی باری پر چلے جانا ہے، لیکن جو لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں ایسے ہی تھے رانا ظہور علیخان صاحب۔۔۔۔یہ شعر انہوں نے اپنے بارے ہی یاد کروایا تھا شاید
زندہ ہیں جن کے نام جیتے ہیں
مر کے بھی وہ مدام جیتے ہیں۔
اللہ تعالی ان کی قبر کو روشنیوں سے بھر دے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔۔۔۔
اساتذہ سے محبت کے حوالے کہے ہے، یا استاد ، یا استاد