زو ٹوپیا ہالی وڈ فلم 2016 ریویو

0
1290
دوہزار سولہ کی سب سے زیادہ کمانے والی فلم کیپٹن امریکہ ہے اور اس کے بعد زوٹوپیا کا نمبر آتا ہے۔ زوٹوپیا نامی تھری ڈی کارٹون فلم اب تک نوسو اکانوے ملین ڈالر کا بزنس کر چکی ہے۔ کمائی کے لحاظ سے یہ اب تک بننے والی تمام کارٹون فلموں میں چوتھے نمبر پر ہے، جبکہ اگر ہر قسم کی فلموں کو اس فہرست میں شامل کر لیا جائے تو یہ اس لسٹ میں چھبیسویں نمبر پر آتی ہے۔

فلم کا پلاٹ

فلم کی کہانی ایک مادہ خرگوش جوڈی کے گرد گھومتی ہے، جس کو بچپن سے ہی پولیس آفیسر بننے کا شوق ہے۔ اس کے والدین اس کو سمجھاتے ہیں، لیکن وہ اپنے عزائم کے بل بوتے پر پولیس اکیڈمی میں جا پہنچتی ہے، اپنی قابلیت کی بنا پر اکیڈمی میں ٹاپ کرتی ہے۔ اس کی پہلی نوکری قریبی شہر زوٹوپیا میں ہوتی ہے۔ شہر کا پولیس چیف جو بوگو نامی بھینسا ہےاس خرگوش کی ڈیوٹی پارکنگ کی ٹکٹیں لگانے پر لگا دیتا ہے، حالانکہ شہر کے اندر چودہ جانوروں کی گمشدہ ہونے کی خبر ابھی حل طلب ہے۔ جوڈی اس دنیا کو بہتر دنیا بنانے کے خواب دیکھتی ہے اور وہ اصل پولیس والے کا کام کرنا چاہتی ہے۔ اپنی ڈیوٹی کے دوران اس کی مڈبھیڑ ایک لومڑ نک سے ہو جاتی ہے، جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتا ہے۔ ایک پیاز چور کا پیچھا کرتے ہوئے جوڈی چور کو پولیس چیف تک لے آتی ہے۔ اس دوران ایک چوپائے کی بیوی مسز اووٹرمان اپنے شوہر کی تلاش میں پولیس اسٹیشن آ پہنچتی ہے، پولیس آفیسر اسے اپنی روایتی مصروفیات کی کہانیاں سناتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس اس کے کرنے کو وقت نہیں۔ جوڈی بات چیت میں مداخلت کرتے ہوئے اس کیس کو لینے کی حامی بھر لیتی ہے۔ بوگو اس شرط پر راضی ہو جاتا ہے کہ اگر جوڈی اڑتالیس گھنٹے میں ناکام ہو جاتی ہے تو وہ استعفی دے دے گی۔
جوڈی کا کیس بہت مشکل ہے، وہ نک سے مدد طلب کرتی ہے اور اس کو بلیک میل کر کے اپنے ساتھ کام کرنے پر راضی کر لیتی ہے۔

جوڈی مختلف سراغوں کی کڑیاں ملاتی ہوئی نہ صرف اووٹرمان تک پہنچ جاتی ہے بلکہ چودہ لاپتہ جانوروں کا بھی پتہ چلا لیتی ہے، لیکن اس دوران اس پر آشکار ہوتا ہے کہ سب جانور واپس درندے بن چکے ہیں جو کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جانوروں کو غائب کرنے کے شبے میں شہر کا مئیر شیر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اس موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے جوڈی جانوروں کی حیاتیاتی ساخت کو مورد الزام ٹھہراتی ہے اس کا موقف ہے کہ جانور اس لئے درندے بنے کہ وہ پہلے سے اس طرز کی ساخت میں تھے، جیسے کہ خرگوش کبھی گوشت خور نہیں ہو سکتا۔ ان باتوں پر نک جوڈی سے ناراض ہو جاتا ہے کہ تمہیں ابھی تک مجھ پر اعتبار نہیں آیا۔
جوڈی غم زدہ ہو کر نوکری چھوڑ کر واپس اپنے گاجروں کے فارم پر واپس چلی جاتی ہے، جہاں اسے اچانک جانوروں کے درندہ ہوجانے کی کہانی سمجھ میں آتی ہے۔ اسے شک پڑ جاتا ہے کوئی جانوروں کو دھوکے درندہ بنا رہا ہے۔ پھر وہ اس گروہ کر سراغ لگا کر اس کو گرفتار کروادیتی ہے۔

فلم میں خیال کی خوبصورتیاں
فلم ایک نئے جہان کا دروزہ کھولتی ہے، جانوروں کی حسین دنیا، جہاں وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہارمنی میں زندگی گذارتے ہیں، ایک ایسی دنیا جہاں لومڑی کا بچہ بڑا ہو ہاتھی بننے کے خواب دیکھ سکتا ہے، جہاں ایک ننھی منی خرگوشنی خاندانی روایات کو توڑ کر اپنے بچپن کا خواب پورا کرسکتی ہے، جہاں پر شہر کے مئیر کو لوگوں کو حبس بے جا میں رکھنے پر قید کیا جا سکتا ہے۔ یہ فلم بہت سے خوبصورت خیالات کی تصویراتی منظر کشی پیش کرتی ہے۔

ٹیکنکل سائیڈ

موووی کی لمبائی ۔ ایک گھنٹہ اڑتالیس منٹ
تاریخ ریلیز۔ مارچ دوہزار سولہ ان ڈنمارک
ڈائریکٹرز۔ بائرن ہاوڈ، رچ موور، جرید بش،
فلم کا بجٹ۔ ایک سو پچاس ملین ڈالر

کچھ تبصرہ ہمارا
میرے خیال میں فلم ہماری زندگیوں کی روٹین میں ایک نخلستان پیدا کرتی ہے، اور یہ فلم ہمیں زندگی کی یک رنگی سے دور لے جانے کی طاقت رکھتی ہے، جانوروں کے چہروں میں چھپے ہوئے روز مرہ کے کردار انسان کو اجنبی نہیں لگتے، ہمارا کمزوروں سے رویہ، باس کا ماتحت پر رعب، والدین کا بچوں کو سمجھانا، بچوں کا اپنے خواب پورے کرنے کی ضد کرنا، مجرموں کے کردار کی تصویر کشی، یعنی ہر ہر کردار ہماری انسانی زندگی اور نفسیات کی کہانی لئے ہوئے ہے۔ اگر وقت اجازت دے تو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر یہ فلم دیکھی جا سکتی ہے۔

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.