ائیر پورٹ پر سامان جمع کروانے والی لائن میں لگا ہوا تھا کہ ایک نسوانی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا، اجی سنئیے ، لہجہ شائستگی سے بھرپور اور ادائیگی نستعلیق سے مخمور تھی، میں نے مڑ کر دیکھا ایک اجنبی خاتون مجھ سے مخاطب تھیں، کہنے لگیں جی ہمارا کچھ سامان زیادہ ہو رہا ہے اور آپ کے پاس سامان کچھ کم دکھائی دے رہا ہے ، اگر آپ میرا کچھ سامان اپنے ساتھ بک کروا لیں۔۔میں اس اجنبی عورت کی جرات رندانہ پر حیرت زدہ تھا کہ کیا زمانہ جا رہا ہےاور آپ اپنے ایک دو ہزار روپے بچانے کے لئے مجھ پر اپنا بوجھ لادنا چاہتی ہو؟ خیر میں نے بھی جی معذرت میں ایسا نہیں کر سکتا کہہ کر ہال کی چھت کی طرف دیکھنا شروع کردیا، ہو سکتا ہے کہ کوئی مہربان پاکستان کی محبت میں ان کا سامان اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے۔ زندگی کا پہلا سفر جو وطن سے باہر کیا وہ امریکہ کا تھا اور ہم نے جی کھول کر سامان ساتھ لیا، چونسٹھ کلو سامان لیجایا جا سکتا تھا اور ہم نے اس لمٹ کو بھر پور انداز میں استعمال بھی کیا، لیکن اس سامان کو منزل تک پہنچاتے پہنچاتے زندگی کا ایک سبق سیکھا کہ اپنی ہمت سے زیادہ سامان کسی سفر میں بھی نہیں اٹھایا جائے گا،
ہمیں تو خیر یہ سبق خوب یاد ہے مگر کیا کیا جائےان دوستوں کا جن کی کچھ اشئیا کا ایمرجنسی پاکستان پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے، کسی کے لئے ٹیلی فون، لیپ ٹاپ، کپڑے، زیورات، ادویات، میک اپ کا سامان ، جہیز کا سامان وغیرہ ۔۔۔۔جی آپ سمجھے ہوں گے لکھنے والے نے جہیز کا سامان مصنفانہ تعلی کے زمرے میں لکھ دیا ہو گا اب بھلا آپ ہی بتایئے کہ سلائی مشین کو کس خانے میں فٹ کیا جائے؟
اسی سال مارچ کے مہینے میں پاکستان آنے کا ارادہ کیا تو چار موبائل ، دو آئی پیڈ، دو لیپ ٹاپ علاوہ کچھ دوستوں کے بچوں کے کپڑوں کے اکٹھے ہو گئے کہ ان کا پاکستان پہنچنا بہت ضروری ہے، ایسے میں ایک دوست اس بات پر مصر تھے کہ ان کے چار عدد آئی پیڈ لیتا جاوں، میں نے معذرت کی اور کہا کہ میں پہلے سے ہی اوور لوڈ ہوں، اور ویسے بھی اتنے زیادہ آئی پیڈ کوئی کیسے لے جاسکتا ہے، تو ان کا جواب سنہری حروف میں لکھنے کے قابل تھا ، کہنے لگے یار ابھی پچھلے ہفتے جو دوست گیا تھا اس کے ہاتھ چار آئی پیڈ بھیجے تھے کسی نے پوچھا تک نہیں۔
پچھلے چھ سالوں میں ایک درجن پاکستان کے سفر کئے ہوں گے، مجھے سمجھ نہیں کہ لوگ اتنا سامان کیوں ڈھوتے ہیں، وہ اشئیا جو باآسانی پاکستان میں دستیاب ہیں ، وہ پاکستان کیونکر لے کر جانا چاہتے ہیں
دوران سفر سامان اٹھانے کے حوالے سے پاکستانی مسافروں کا رویہ دنیا بھر کے مسافروں سے نرالا ہے۔
جیسے پاکستان آموں کا رنگ روپ دنیا میں پائے جانے والے آموں سے ذرا ہٹ کے اور وکھرا ہے ویسے ہی پاکستان مسافروں کا رنگ روپ اور سٹائل دنیا کے مسافروں سے جدا ہے،یں۔اگر آپ دنیا کے کسی بھی ائیرپورٹ پر کھڑے ہوں جہاں پاکستان کے لئے فلائٹ چلتی ہو اورآپ کو دور سے سامان والی ٹرالی اکیلی چلتی ہوئی نظر آئے یعنی اتنا سامان لدا ہوا ہو کہ ٹرالی کو دھکا لگانے والا نظر ہی نہ آئے ، تو آنکھیں بند کر کے سمجھ لیں کہ اپنا ہی کوئی بھائی اپنے سگے بھائیوں کے لئے تحفے تحائف سے لدا جا رہا ہے۔ ۔۔کافی سال پہلے ڈنمارک کے لئے وزن لانے کی شرط فی سواری چوبیس کلو ہوا کرتی تھی، لوگ دو تین کلو اضافی سامان پھر بھی باندھ لیتے تھے کہ اتنے سامان سے کیا ہو جائے گا۔ پھر سامان لانے کی حد تیس کلو فی کس کردی گئی لوگ بتیس لانے لگے، پھر چالیس کردی گئی تو لوگ بیالیس لانے لگے۔۔۔
خیر سامان کی حد جتنی بھی ہو ہم ایک دو کلو اضافی سامان ضرور اٹھاتے ہیں، ساتھ میں خالی شاپر جیبوں میں بھر کر لے جاتے ہیں کہ اگر کوئی ظالم آفیسر ٹکر گیا تو شاپر میں ڈال کر اس شخص کے ہاتھ واپس بھیج دیں گے جو آپ کو ائیر پورٹ پر رخصت کرنے گیا ہے۔ پاکستان کے ائیرپورٹس پر زیادہ سامان والے لوگ عملے کے پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کے پوٹنشل کسٹمرز ہوتے ہیں جن سے عملہ بھاو تاو کرکے کچھ سامان مروت کے کھاتے میں اور کچھ سامان بخشیش کے کھاتے میں ڈال کر نکال دیتے ہیں اور بعض اوقات کسٹمر ضدی ہو تو مجبورا سرکاری خزانے کے لئے بھی رسید بنانی پڑتی ہے۔،
وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا کہ
اس نے کل گاوں سے رخت سفر باندھا تھا
بچہ آغوش میں تھا پشت پہ گھر باندھا تھا
اس شعر کی حقیقی معنوں کی تفسیر مجھے پاکستانی ہوائی اڈوں پر نظر آتی ہے، نجانے کیوں لوگ اپنے وزن کی حد میں رہنا ہی نہیں چاہتے۔
کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ ائیرپورٹ انتظامیہ سے درخواست کر کے یہ شعر سامان جمع کروانے والے کاونٹر پر لگوادوں
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
ہمیں تو خیر یہ سبق خوب یاد ہے مگر کیا کیا جائےان دوستوں کا جن کی کچھ اشئیا کا ایمرجنسی پاکستان پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے، کسی کے لئے ٹیلی فون، لیپ ٹاپ، کپڑے، زیورات، ادویات، میک اپ کا سامان ، جہیز کا سامان وغیرہ ۔۔۔۔جی آپ سمجھے ہوں گے لکھنے والے نے جہیز کا سامان مصنفانہ تعلی کے زمرے میں لکھ دیا ہو گا اب بھلا آپ ہی بتایئے کہ سلائی مشین کو کس خانے میں فٹ کیا جائے؟
اسی سال مارچ کے مہینے میں پاکستان آنے کا ارادہ کیا تو چار موبائل ، دو آئی پیڈ، دو لیپ ٹاپ علاوہ کچھ دوستوں کے بچوں کے کپڑوں کے اکٹھے ہو گئے کہ ان کا پاکستان پہنچنا بہت ضروری ہے، ایسے میں ایک دوست اس بات پر مصر تھے کہ ان کے چار عدد آئی پیڈ لیتا جاوں، میں نے معذرت کی اور کہا کہ میں پہلے سے ہی اوور لوڈ ہوں، اور ویسے بھی اتنے زیادہ آئی پیڈ کوئی کیسے لے جاسکتا ہے، تو ان کا جواب سنہری حروف میں لکھنے کے قابل تھا ، کہنے لگے یار ابھی پچھلے ہفتے جو دوست گیا تھا اس کے ہاتھ چار آئی پیڈ بھیجے تھے کسی نے پوچھا تک نہیں۔
پچھلے چھ سالوں میں ایک درجن پاکستان کے سفر کئے ہوں گے، مجھے سمجھ نہیں کہ لوگ اتنا سامان کیوں ڈھوتے ہیں، وہ اشئیا جو باآسانی پاکستان میں دستیاب ہیں ، وہ پاکستان کیونکر لے کر جانا چاہتے ہیں
دوران سفر سامان اٹھانے کے حوالے سے پاکستانی مسافروں کا رویہ دنیا بھر کے مسافروں سے نرالا ہے۔
جیسے پاکستان آموں کا رنگ روپ دنیا میں پائے جانے والے آموں سے ذرا ہٹ کے اور وکھرا ہے ویسے ہی پاکستان مسافروں کا رنگ روپ اور سٹائل دنیا کے مسافروں سے جدا ہے،یں۔اگر آپ دنیا کے کسی بھی ائیرپورٹ پر کھڑے ہوں جہاں پاکستان کے لئے فلائٹ چلتی ہو اورآپ کو دور سے سامان والی ٹرالی اکیلی چلتی ہوئی نظر آئے یعنی اتنا سامان لدا ہوا ہو کہ ٹرالی کو دھکا لگانے والا نظر ہی نہ آئے ، تو آنکھیں بند کر کے سمجھ لیں کہ اپنا ہی کوئی بھائی اپنے سگے بھائیوں کے لئے تحفے تحائف سے لدا جا رہا ہے۔ ۔۔کافی سال پہلے ڈنمارک کے لئے وزن لانے کی شرط فی سواری چوبیس کلو ہوا کرتی تھی، لوگ دو تین کلو اضافی سامان پھر بھی باندھ لیتے تھے کہ اتنے سامان سے کیا ہو جائے گا۔ پھر سامان لانے کی حد تیس کلو فی کس کردی گئی لوگ بتیس لانے لگے، پھر چالیس کردی گئی تو لوگ بیالیس لانے لگے۔۔۔
خیر سامان کی حد جتنی بھی ہو ہم ایک دو کلو اضافی سامان ضرور اٹھاتے ہیں، ساتھ میں خالی شاپر جیبوں میں بھر کر لے جاتے ہیں کہ اگر کوئی ظالم آفیسر ٹکر گیا تو شاپر میں ڈال کر اس شخص کے ہاتھ واپس بھیج دیں گے جو آپ کو ائیر پورٹ پر رخصت کرنے گیا ہے۔ پاکستان کے ائیرپورٹس پر زیادہ سامان والے لوگ عملے کے پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کے پوٹنشل کسٹمرز ہوتے ہیں جن سے عملہ بھاو تاو کرکے کچھ سامان مروت کے کھاتے میں اور کچھ سامان بخشیش کے کھاتے میں ڈال کر نکال دیتے ہیں اور بعض اوقات کسٹمر ضدی ہو تو مجبورا سرکاری خزانے کے لئے بھی رسید بنانی پڑتی ہے۔،
وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا کہ
اس نے کل گاوں سے رخت سفر باندھا تھا
بچہ آغوش میں تھا پشت پہ گھر باندھا تھا
اس شعر کی حقیقی معنوں کی تفسیر مجھے پاکستانی ہوائی اڈوں پر نظر آتی ہے، نجانے کیوں لوگ اپنے وزن کی حد میں رہنا ہی نہیں چاہتے۔
کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ ائیرپورٹ انتظامیہ سے درخواست کر کے یہ شعر سامان جمع کروانے والے کاونٹر پر لگوادوں
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
یہ بلاگ نیو نیٹ ورک پر چھپ چکا ہے http://urdu.neonetwork.pk/?p=18599