اس جذبے کو بیان کرنے کے لئے الفاظ ڈھونڈ رہا ہوں، جو ہر ایک غریب الدیار کے دل اور روح کی آواز ہوتے ہیں۔ تنہائی کی ساری راتیں، وطن سے دور عیدیں اور شب راتیں جن کی گذرتی ہیں بس وہی جانتے ہیں۔۔ کوئی کم کوئی زیادہ محسوس کرتا ہے لیکن دل ہر کسی کا کٹتاہے۔۔۔ہاں شاید ان کا دل اب کچھ ٹھہر گیا ہو ، جن کے پاوں میں بچوں اور ان کے بچوں کی محبت کی بیٹریاں پڑ گئی ہوں، لیکن وطن سے محبت کا اظہار بہت ہی فطری ہے۔۔۔۔۔وہ بھی شاید اتنا نہ سوچتے ہوں، جن کو امید ہو کہ ایک آدھ برس میں کوئی ڈگری، یا اعزاز سمیٹ کر کسی عالی شان کرسی پر جا بیٹھیں گے۔ لیکن وہ پردیسی جن کے پاوں خوابوں کی زیجیروں سے بندھ جائیں، جن کو رہائی کی تاریخ کا اندازہ ہی نہ ہو۔۔جن کی منزل کا نشان کبھی راھگزار میں چمکے اور چمک کر کھو جائے۔۔۔تو ایسے مسافر کبھی تو دوڑنے لگتے ہیں اور کبھی بالکل ٹھہر جاتے ہیں۔۔۔۔