بچوںکے ادب سے شروع کرتا ہوں۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا ، یہ دونوں بچوں کے لئے ہی لکھی گئی تھیں اور غالبآ انہیں فیروز سنز نے شائع کیا تھا۔ان میں سے ایک کو مقبول جہانگیر نے لکھا اور دوسری شائد مظہر کلیم نے لکھی۔ میں آج تک ان دونوں کتابوں کی سیریز کو نہیں بھول سکا۔ اگرچہ طلسم ہوشربا اصلی والی بھی پڑھی، مگر اس میں وہ مزا نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ کوئی صاحب ہمت کر کے طلسم ہوشربا کو دوبارہ لکھ ڈالیں یا اس کی کم از کم تسہیل ہی کر ڈالتے، مجھے زیادہ کوفت اس وقت ہوتی ہے ، جب اس میں عمرو عیار کے بجائے ان کے بیٹوں اور شاگردوں کے کردار زیادہ نمایاں لگتے ہیں، حالانکہ جو ہم نے پڑھی اس میں عمرو عیارہی اصل عیار تھے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اس کو اچھے طریقے اور مہنگے نرخوں پر دوبارہ چھاپا ہے ، مگر اسلوب وہی پرانا ہے، جو نئے قارئین کو کھٹکتا ہے۔
اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سیریز، انسپکٹر کامران سیریز ، ابن صفی اور مظہرکلیم کی عمران سیریز کو میں سکول لیول کے جاسوسی مطالعے تک ہی محدود سمجھتا ہوں، نسیم حجازی کے ناول بھی میٹرک تک ہی پڑھے جا سکتے ہیں، ابن صفی کے پرستار ناراض ہو جاتے ہیں، مگر ان کی تحریریں بھی عمر کے اوائل حصے ہی میں پڑھی جا سکتی ہے۔ پڑھنے کا چسکا لگ جاتا ہے ان سے۔ تاریخ کی کتابیں، خاص کر تاریخ طبری، ابن خلدون ، ابن کثیر وغیرہ پڑھنے کا چسکا مجھے کالج کے ابتدائی دو برسوں میں پڑا۔ انہی دو برسوںمیں دیوبندی، بریلوی روایتی بحث مباحثوں نوربشر، حاضر ناظر کے لئے بھی کچھ وقت صرف کرنا پڑا، خلافت وملوکیت بھی اسی عرصے میں پڑھ لی تو اس حوالے سے جو تنازعات، مباحث کھڑے ہوئے، وہ بھی اسی عرصے میں نمٹائے۔ یاد رہنے والی کتابیں ان دو تین برسوں میں مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے ، خاص کر نکلے تیری تلاش میں، خانہ بدوش اور ناولوں میں پیار کا پہلا شہر شامل ہے، جپسی اپنے تلذز کی وجہ سے تھوڑا سا یاد ہے۔ البتہ تارڑ صاحب کے دوسرے اہم ناول بہائو، قربت مرگ میں محبت، ڈاکیہ اور جولاہا، خس وخاشاک زمانے وغٰیرہ بعد میں پڑھے۔ ہاں سفرناموں میں تارڑ کا ایک بہت اہم سفرنامہ اندلس میں اجنبی کو کون بھول سکتا ہے، میں تو اس ہائی ریٹ کرتا ہوں۔پاکستان کے حوالے سے ان کے درجن بھر سفرنامے پڑھے، یاد ایک بھی نہیں، ایک کا تاثر دوسرے میں گڈ مڈ جاتا ہے۔ تارڑ صاحب نے شمالی علاقوں کے سفرناموں میں خود کو بہت دہرایا ہے۔
اسی زمانے کی دوسری یاد رہنے والی کتابوں میں مولانا آزاد کی غبار خاطر نے دل موہ لیا ، اسے بعد میں بھی کئی بار پڑھا، مولانا ہی کی تذکرہ اور قول فیصل بھی پسند اآئیں، انڈیا ونز فریڈم بعد میں پڑھی ،مگر اس نے زیادہ متاثر نہیں کیا، مولانا نے مصلحت سے کام لیا اس میں اور کھل کر باتیںنہیں لکھیں، مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس کے تیس صفحات میں کون سی ایسی بات تھی ،جسے تیس سال کے لئے محفوظ رکھا گیا۔ ایک اور مولانا آزاد یعنی محمد حسین آزاد کی آب حیات میں نے تین چار بار پڑھی، مرزا فرحت اللہ بیگ کی دلی کا آخری معاشرہ ان کی ٹکسالی اردو نثر کا مزا لینے کے لئے پڑھی۔ کالج کے تین چار برسوں مین یعنی بی ایس سی تک ہی کالج کی لائبریری اور شہر کی میونسپل لائبریری سے بہت سی اور کتابیں پڑھیں ، کچھ کو کبھی نہ بھول سکا۔ مختار مسعود کی آواز دوست ان میں سرفہرست ہے، ان کی بعد میں لکھی سفر نصیب زیادہ پسند نہیں آئی، لوح ایام البتہ خوب ہے۔ مشتاق یوسفی کی پہلی تینوں کتابیں انہی برسوںمیں پڑھیں، چراغ تلے، خاکم بدہن اور زرگزشت، آب گم برسوںبعد میں پڑھی۔ یوسفی صاھب کے سحر کے بارے مین کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ میں مزاح نگاری مین ابن انشا کا بھی بڑا قائل ہوں۔ ویسے تو شفیق الرحمن کا اپنا مزا ہے، خاص کر حماقتیں، مزید حماقتیں وغیرہ کا۔ محمد خالد اختر کو البتہ ہمارے ہاں انڈر اسٹیمیٹ کیا گیا۔ مجھے فرسٹ ائیر میں ان کی کتاب چاکی واڑہ میں وصال پڑھنے کا موقعہ ملا، بہت پسند آئی، دس بارہ سال بعد پھر پڑھی، محمد خالد اختر کی اور کتابیں بھی اچھی لگیں، چچا عبدالباقی کی کہانیاں وغیرہ۔ میں خالد اختر کا بڑا قائل ہوں، ان کی کتابوں پر تبصروں کی کتاب دو تین برس پہلے پڑھی، مزا آگیا۔ آکسفورڈ نے ان کا تمام کام اکٹھا کر چھاپا ہے۔ضرور پڑھنا چاہیے۔ فیض احمد فیض چاکیواڑہ میں وصال کے بڑے قائل تھے۔ انہی دنوں اخلاق احمد دہلوی کے خاکون کی کتاب پھر وہی انداز بیاں پڑھی ، کمال کی زبان تھی ان کی، یہ کتاب بعد میں بڑی ڈھونڈی،مگر نہ مل سکی۔شاہد احمد دہلوی کی اجڑا دیار بھی کمال ہے۔ جوش کی یادوں کی برات نے ان دنوںمسحور کر دیا تھا۔ کئی برس تک یہ طریقہ رہا کہ جب خیالات بنجر محسوس ہوتے ، یادوں کی برات دوبارہ پڑھتا، سرشاری کی کفیت طاری ہو جاتی، اب چند ماہ پہلے پھر پڑھی تو خوفناک قسم کی مایوسی ہوئ۔ حیرت ہوئی ایسی پوچ اور بچکانہ قسم کی کتاب اتنی پسند تھی۔ معلوم نہیں اب بدزوق ہوگیا یا اب سمجھ آ گئی ہے۔کالج کے انہی برسوںمین شاعری خاصی پڑھ لی، فیض سے ناصر، منیر، قاسمی، فراز، شکیب جلالی وغیرہ ۔ مجید امجد البتہ اس وقت بور لگے، ان کی شاعری بعد میں اچھی لگی، البتہ ن م راشد نے مسحور کر دیا تھا۔
لاہور آنے کے بعد کچھ فکری کتابیں بھی پڑھنے کا موقعہ ملا۔ مولانا ابوالحسن ندوی کی کتابیں والد صاحب کی لائبریری میں تھیں وہ پڑھ چکا تھا، سید مودودی کی کئی کتابیں بھی انہی دنوں پڑھیں۔ لاہور میں البتہ مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کو پڑھنے کا موقعہ ملا، جعفر شاہ پھلواروی کی دو تین کتابیں پڑھیں، کئی نئے زاویے سامنے آئے۔ شاہ ولی اللہ کی حجتہ البالغہ انہی برسوں میں پڑھی، امام غزالی کی چند کتابیں بھی پڑھین، مولانا وحیدالدین خان سے بھی انہی دنوں واقفیت ہوئی، غامدی صاحب کوپڑھا اور براہ راست سننے کا بھی موقعہ ملا۔ ڈاکٹر اسرار نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا۔ میں مولانا ندوی سےمتاثر رہا، تاریخ دعوت و عزیمت، اسلامی دنیا میں مغرب اوراسلامیت کی کشمکش، قادیانیت ایک مطالعہ وغیرہ۔ ہاں کربلا کے حوالے سے بھی کچھ لٹریچر لاہور آنے سے پہلے پڑھا، ان میں مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کی دو کتابیں مختلف لگیں۔ تفصیل سے میں اعراض کرنا پسند کروں گا۔ ایک دوست نے مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی کی کتابیں پڑھنے کو دیں، امید کرتا ہوں کہ نام درست لکھا گیا ہے، دینی روایات کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل کتاب تھی، ایک بار تو ہلا کر رکھ دیا اس نے ۔ ہاں بریلویت دیوبندی کشمکش کے دنوں میں مولانا ارشد القادری کی ایک کتاب زلزلہ پڑھی، جس مین مولانا عامر عثمانی مدیر تجلی دیوبند کے بہت سے حوالے تھے، بعد میں پتہ چلا کہ اس کا جواب بھی لکھا گیا۔ خیر اللہ نے کرم کیا اور ان سطحی بحثوں سے اوپر اٹھنے میں کامیاب ہوگئے۔ علامہ شبلی نعمانی نے بھی انہی دنوںم تاثر کیا، ان کا تقریبا سب کام ،خاص کر الفاروق، المامون وغیرہ۔ برسوں بعد ان کے مقالات کی چھ سات کتابیں پڑھیں وہ سب پسند آئیں۔
لاہور آنے کے بعد اردو ڈائجسٹ لائبریری سے خاصا استفادہ کیا یا پھر قائداعظم لائبریری چلے جاتے ، وہاں گھنٹوں پڑھتے رہتے۔ سید سبط حسن ، عبداللہ ملک وغیرہ کو انہی دنوں پڑھا۔ اردو ڈائجسٹ مین ماہر القادری کے کتابوںپر شاندار تبصرے پڑھے، وہ دلچسپ تھے۔ انہی دنوں احمد بسیر کے منفرد خاکوں کا مجموعہ جو ملے تھے راہ میں پڑھا، بہت پسند آیا۔ ممتاز مفتی کی علی پور کا ایلی اور پھر کئی برس بعد الکھ نگری بھی لاہور ہی میں پڑھی، مجھے مفتی کے افسانوں نے زیادہ متاثر نہیں کیا، البتہ ان کے خاکے دلچسپ ہیں۔ یہیں پر منٹو، کرشن چندر، بیدی، عصمت، غلام عباس، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو پڑھا۔ ان میں منٹو ہی یاد رہا۔ بیدی میری ناچیز رائے میں اوور ریٹیڈ رائٹر ہے، کرشن چندر کو ترقی پسند ادب لے ڈوبا، مگر اس کے دامن میں چند ایک عمدہ افسانے موجود ہیں، عصمت نے ہمیں تو کبھی متاثر نہیں کیا۔ واجدہ تبسم میں تلذز ہی ہے، جیلانی بانو کے البتہ بعض افسانے اچھے ہیں، ہاجرہ مسرور کے افسانونکی کلیات میں نے کراچی میں پڑھی، ایک بھی یاد نہیں، نہ ہی خدیجہ مستور کا لکھا کچھ یاد ہے، آنگن سمیت۔ جمیلہ ہاشمی البتہ اپنی تروتازگی کے ساتھ یاد ہیں۔ تلاش بہاراںمجھے زیادہ اچھا نہیں لگا، دشت سوس کمال کا ناول ہے، قرتہ العین طاہرہ پر بھی جمیلہ ہاشمی نے ایک حیران کن ناولٹ لکھا، جو آئوٹ آف پرنٹ ہے۔ بانو آپا کا سب سے بہتر کام راجہ گدھ ہی ہے۔ عبداللہ حسین کا سب کام لاہور کے ابتدائی برسوں میں پڑھا۔ اداس نسلیں، نشیب، باگھ وغیرہ اور آخری ناول نادار لوگ۔ یار رہنے والا ان کا اداس نسلیں ہی ہے، نادار لوگ بھی اچھا ہے۔ حال ہی میں یعنی پچھلے دو تین برسوں میں دو تین اچھے ناول پڑھے، شمس الرحمن فاروقی کا کئی چاند تھے سر آسمان غیرمعمولی ناول ہے، مرزا اطہر بیگ کا ناول غلام باغ، سائبر سپیس کا منشی بھی اچھا لگا۔
عالمی ادب سے زیادہ واسطہ تراجم کے ذریعے پڑا۔ ٹالسٹائی کے وار اینڈپیس اور دوستئو فسکی کے برادرز کراما زوف کے تراجم کے لئے اردو کے قارئین کو شاہد حمید صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ انہوں ن حیران کن کام کیا ہے۔جرم وسزا کا بھی ترجمہ ہی پڑھا تھا۔ یہ تینوں بہت بڑے ناول ہیں۔ ان کے ساتھ محمد حسن عسکری کا ترجمہ شدہ موبی ڈک مجھے بہت اچھا لگا۔ چیخوف اور موپساں کے افسانے، اوہنری کی کہانیاں، گوئٹے کا فاوسٹس، کافکا کا دی ٹرائیل، کیسل اور دیگر کام۔ سارتر اور کامیو کی وجودیت کا پس منظر لئےناول اورکہانیاں۔ اینا کرینینا بھی ٹالسٹآئی کا ایک شاندار ناول ہے۔ بعد میں تراجم ہی کے ذریعے میں تو گارشیا مارکیز سے متعارف ہوا اور مسحور ہوکر رہ گیا۔ تنہائی کے سو برس، وبا کے دنوں میں محبت، کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا، ایک پیش گفتہ موت کی روداد۔ مارکیز کو جتنا پڑھا ، لطف اور حیرت بڑھی۔ پائلو کوہیلو کا الیکمسٹ کمال کا ناول ہے ، مگر دوسرے ناولوں میں وہ متاثر نہیں کر پایا۔ اوحان پاموک کو حال ہی میں پڑھا، اس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ۔ سفید قلعہ اور حال ہی میں پڑھا جانے والا مائی نیم از ریڈ۔ پاموک بہت مختلف رائٹر ہے، اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ حوزے ساراگوما کا ناول اندھے لوگ قیامت خیز قسم کی تحریر ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ مختلف انداز سے زندگی اور دنیا کو دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ میلان کنڈیرا بھی حیران کر دینے والا ادیب ہے۔ عرب ادیبوں میں سے نجیب محفوظ متاثر کن ہے۔ اروندھتی رائے کا ناول گاڈ آف سمال تھنگز اردو مین مشکل لگا، انگریزی میں اچھا لگا۔ اروند اڈیگا کا بکر پرائز یافتہ ناول بھی اچھا لگا۔ وکرم سیٹھ نے مجھے البتہ زیادہ متاثر نہیں کیا۔
علما کی تحریروں مین مجھے مولانا مناظر احسن گیلانی نے متاثر کیا۔ کمال کی تحریر ہے ان کی۔ وحیدالدین خان میں کئی تضادات ہیں، مگر ان کا اعراض کا نظریہ خوب ہے۔ غامدی صاحب کی کئی چیزوں سے اختلاف ہے ، مگر بہرحال وہ چونکاتے ہیں، مجھے یہ البتہ اب لگنے لگا کہ وہ بعض معاملات میں دانستہ چونکانے کی طرف چلے جاتے ہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی کی پچھلے سال دو کتابیں پڑھیں دونوں پسند آئیں۔ خاص کر دین میں ترجیحات کا معاملہ۔سید فتح علی گولن کی کئی کتابیں پڑھی ہیں، اچھا لکھتے ہیں، اخوانی ادیبوں مین سید قطب مشکل پسند مگر چونکا دینے والے سکالر ہیں، مجھے محمد الغزالی نے بھی متاثر کیا ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کی تحریریں ابھی تک نہیں پڑھ سکا،چاہ رہا ہوں کہ انہیں پڑھا جائے۔ مولانا زاہد الراشدی کا توازن اور اعتدال اچھا لگا، نوجوان لکھنے والوں میں عمار ناصر قابل ذکر ہیں، مگر مجھے خدشہ ہے کہ وہ بہت تیزی سے متنازع ہورہے ہیں، جو اچھی علامت نہیں۔ پچھلے سال بک ایکسپو سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات سیرت، قران ، فقہ اورغالبآ حدیث پڑھے۔ ڈاکٹر صاحب نے متاثر کیا ہے۔ ایک ناول جو دینی حوالے سے لکھا گیا، ابو یحیحیٰ کا جب زندگی شروع ہوگی ۔ اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میرے سوچنے کا انداز ہی بدل گیا۔ میرے اوپر اس ناول اور اس کے ادیب کا بڑا احسان ہے۔
محمد کاظم سے عربی ادب کے حوالے سے تعارف ہوا۔ ان کی لکھی عربی ادب کی تاریخ ایک شاندار کتاب ہے۔ عربی ادب میں مطالعے، اخوان الصفہ اور دیگر مضامین اور ایک اور اہم کتاب مسلم فلسفہ عہد بہ عہد قابل ذکر ہیں۔ مغربی فلسفے کی تاریخ کے ھوالے سے برٹرینڈرسل اور ول ڈیوراں کو کون بھول سکتا ہے۔ ویسے تو ناروے کے ایک فلسفے کے ٹیچر نے صوفی کی دنیا کے نام سے جو ناول لکھ دیا ،ا س میں پورے مغربی فلسفے کو سمو دیا گیا ہے۔ شاہد حمید نے اس کا بھی کمال ترجمہ کیا ۔ عربی ادب کے ھوالے سے ڈاکٹر خورشید رضوی کی کتاب بھی اہم ہے۔ مگر بلوغ العرب پڑھے بغیر عرب کلچر اور عرب زندگی سمجھ ہی نہیں آتی۔ چار جلدوں پر محیط یہ شاندار کتاب مجھے اردو سائنس بورڈ سے ملی، اسی طرح مقتدرہ ادبیات پاکستان کی شائع کردہ چار جلدوں پر گبن کی مشہور زمانہ کتاب انحطاط وزوال سلطنت رومہ اور بابائے تاریخ کا تواریخ اور جدید عہد میں ٹائن بی کی لکھی سٹڈی آف ہسٹری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔