ایک عجیب سردی سے میرا گھرا بھرا پڑا ہے، کمروں ،بیٹھک، برآمدوں اور باتھ روموں میں ہر جگہ سردی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، کل سے سورج بھی نہیں نکلا، ویسے بھی سورج نکل بھی آئے تو اونچی منزلوں سے سورج کی حدت بس کچھ دیر کے لئے صحن کو گرماتی ہے، سوئی گیس کی کیا بات کیجئے جو بس چند گھنٹوں کے لئے ہی میسر آتی ہے اور کھانا پکانے کی ساری پلاننگ انہی گھنٹوں میں کی جاتی ہے جب سوئی گیس دستیاب ہو، جیسے اب رات کے آٹھ بجے کے بعد کھانا پکانے کا آغاز کرتے ہیں، یا پھر صبح صبح فجر کی نماز کے بعداور جب آٹھ بجنے لگتے ہیں سوئی گیس غائب ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور بجلی کی تو بات ہی کیا کیجئےجس کے نہ آنے کا پتہ نہ جانے کا۔۔۔۔
گھر کو کیسے گرم کیا جائے، کسی سرکاری آفیسر کی مٹھی بھی نہیں جو چند کھڑکھڑاتے نوٹوں سے گرم ہو جائے گی، وہ گھر جن کی تعمیر میں ایک صورت خرابی کی ہو، ایسے گھر جو گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت ٹھنڈے ہو جائیں، ان گھروں کو حرارت پہنچانے کے لئے کچھ گرمی کسی ہیٹر سے سوا بھی درکار ہے۔ ہماری عمارات تعمیر کرنے والے نجانے کب ایسے میٹریل دریافت کر پائیں گے جن میں موسم کی سختیاں برداشت کرنے کی سکت قدرے بہتر ہوگی، گیس اور بجلی بانٹنے والوں سے تو گلہ ہی کیا، یہ کمی تو نجانے کب پوری ہو گی
لیکن ہم اپنے گھروں کی تعمیر کے طریقوں میں ترویج کر کے موسم کی شدت سے بچنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، وہ ممالک جہاں درجہ حرارت منفی بیس تک چلا جاتا ہے، وہاں کمروں اور گھروں کے ایک سنٹرل ہیٹنگ سسٹم اختیار کیا جاتا ہے، یہ ہیٹنگ سسٹم گرمی پانی کے نظام سے منسلک ہوتا ہے اور اس سے پیدہ شدہ گرمی انسانوں کے لئے بہت کم نقصان دہ ہوتی ہے ،جیسے سوئی گیس سے چلنے والے ہیٹر کمرے میں آکسیجن کی مقدار کو بہت کم کر دیتے ہیں، اور کچھ دیر بعد ایک گھٹن کا احساس پیدا ہونے لگ جاتا ہے اسی طرح بجلی کے ہیٹر بھی جو گرمی پیدا کرتے ہیں وہ بھی انسانی صحت پر بہت خوشگوار اثرات نہیں ڈالتی، ایسے میں پانی سے ہیٹنگ سسٹم ایک اچھی آپشن ہے لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں انفرادی گھروں کے لئے ایک مہنگی آپشن ہے۔ لیکن اپنے ریسورسز میں رہتے ہوئےہم کچھ نہ کچھ ایسا ضرور اختیار کر سکتے ہیں جو روایت سے ہٹ کر ماحول سے لڑنے کی صلاحیت بخشے۔
ہمیں نئے موسموں سے لڑنا سیکھنا ہو گا، دنیا میں گلوبل وارمنگ کی اصطلاح عام ہونے کے بعد ماحول کے ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں تبدیلیاں ہمارے اندازوں کے برعکس ہو سکتی ہیں، سردیاں کچھ اور سرد اور گرمیوں کی شدت کچھ اور زیادہ بڑھ سکتی ہے، جیسے اس سال موسم سرما کے آغاز میں یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ شاید سردی آئے گی نہیں، لیکن پچھلے ایک ہفتے سے سردی اپنے ہونے کا بھرپور احساس دلا رہی ہے۔ اور آج رات کے پہلے پہر پنجاب حکومت نے صوبے بھر کے سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں میں ایک ہفتے کی تعطیلات کا اعلان بھی کردیا ہے۔ موسم سرما کی شدت کے پیش نظر یہ چھٹیاں موسم کے خلاف لڑنے کے لئے ہمارا آخری حربہ ہیں۔
شنید یہ ہے کہ اگر موسم میں شدت برقرار رہی تو چھٹیاں اور بڑھا دی جائیں گی، اور اگر خدانخواستہ موسم میں عالمی تبدیلیوں کے پیش نظر موسم ایک ماہ بھی تبدیل نہ ہو پائے تو کیا گرمیوں کی طرز پر سردیوں کی بھی لمبی چھٹیاں ہونا شروع ہو جائیں گی۔
وہ ملک جہاں موسموں کی شدت ہمارے ملک سے بہت زیادہ ہے ، وہاں انہوں نے چھٹیوں کے ذریعے موسم کی مینجمنٹ نہیں کرتے بلکہ موسم کی مناسبت سے ایسے انتظامات کئے جاتے ہیں جن میں لوگوں کے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں، ابھی حالیہ طوفانوں میں امریکہ کی کئی ایک ریاستوں میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا، لیکن عمومی شدید موسم میں جیسے منفی بیس بائیس درجہ حرارت میں بھی لوگ اپنے معمولات زندگی اسی طرح سے جاری رکھتے ہیں۔ سیکنڈے نیویا جسے چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات کی سر زمین تصور کیا جاتا ہے، وہاں بھی سردیاں منفی درجہ حرارت رکھتی ہیں، مگر سردیوں کے دنوں میں سورج کا صرف چند گھنٹوں کئے نکلنا یا شدید برفانی ہواوں کا چلنا، یا برف کا گرنا لوگوں کی زندگیوں پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا کہ سکول بند کرنے پڑیں اور کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے۔
بدلتے موسموں کی تیاری کے لئے ہمیں اپنے ماحول کے مطابق اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانا ہو گی، سردی سے مقابلہ کرنے والے مکانات اور گرمیوں میں کم گرم ہونے والے میٹریل کو تریج دینا ہو گی۔ اپنے ماحول کو بہتر بنانے کے لئے درختوں کو گھروں میں آباد کرنا ہوگا، ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ جیسے اثرات کو مات دینے کے لئے چھوٹے چھوٹے گرم جزیروں میں نخلستان تعمیر کرنے ہوں۔ ورنہ ہر بدلتے موسم کا مقابلہ سکولوں میں مزید چھٹیاں کر کے نہیں کیا جا سکتا۔
ایسے حالات میں جب سورچ مرضی سے نکلتا ہو، سوئی گیس کے آنے کی امید ہی نہ ہو، بجلی کے پورے ہونے کا امکان نہ ہو، کیا چھٹیوں سے سردیوں کو گرم کرنے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، ؟
بس گرم کپڑے پہن کر لحاف اووڑھ کر گھروں میں دبک کر بیٹھا جا سکتا ہے، مگر ایک فعال زندگی گذارنے کے لئے ہمیں اپنے گھروں، اور دفاتر کی تعمیر کا انداز بدلنا ہو گا، سکولوں اور اداروں کو موسم سے مقابلہ کرنے والے آلات و سامان سے لیس کرنا ہوگا،
گھر کو کیسے گرم کیا جائے، کسی سرکاری آفیسر کی مٹھی بھی نہیں جو چند کھڑکھڑاتے نوٹوں سے گرم ہو جائے گی، وہ گھر جن کی تعمیر میں ایک صورت خرابی کی ہو، ایسے گھر جو گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت ٹھنڈے ہو جائیں، ان گھروں کو حرارت پہنچانے کے لئے کچھ گرمی کسی ہیٹر سے سوا بھی درکار ہے۔ ہماری عمارات تعمیر کرنے والے نجانے کب ایسے میٹریل دریافت کر پائیں گے جن میں موسم کی سختیاں برداشت کرنے کی سکت قدرے بہتر ہوگی، گیس اور بجلی بانٹنے والوں سے تو گلہ ہی کیا، یہ کمی تو نجانے کب پوری ہو گی
لیکن ہم اپنے گھروں کی تعمیر کے طریقوں میں ترویج کر کے موسم کی شدت سے بچنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، وہ ممالک جہاں درجہ حرارت منفی بیس تک چلا جاتا ہے، وہاں کمروں اور گھروں کے ایک سنٹرل ہیٹنگ سسٹم اختیار کیا جاتا ہے، یہ ہیٹنگ سسٹم گرمی پانی کے نظام سے منسلک ہوتا ہے اور اس سے پیدہ شدہ گرمی انسانوں کے لئے بہت کم نقصان دہ ہوتی ہے ،جیسے سوئی گیس سے چلنے والے ہیٹر کمرے میں آکسیجن کی مقدار کو بہت کم کر دیتے ہیں، اور کچھ دیر بعد ایک گھٹن کا احساس پیدا ہونے لگ جاتا ہے اسی طرح بجلی کے ہیٹر بھی جو گرمی پیدا کرتے ہیں وہ بھی انسانی صحت پر بہت خوشگوار اثرات نہیں ڈالتی، ایسے میں پانی سے ہیٹنگ سسٹم ایک اچھی آپشن ہے لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں انفرادی گھروں کے لئے ایک مہنگی آپشن ہے۔ لیکن اپنے ریسورسز میں رہتے ہوئےہم کچھ نہ کچھ ایسا ضرور اختیار کر سکتے ہیں جو روایت سے ہٹ کر ماحول سے لڑنے کی صلاحیت بخشے۔
ہمیں نئے موسموں سے لڑنا سیکھنا ہو گا، دنیا میں گلوبل وارمنگ کی اصطلاح عام ہونے کے بعد ماحول کے ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں تبدیلیاں ہمارے اندازوں کے برعکس ہو سکتی ہیں، سردیاں کچھ اور سرد اور گرمیوں کی شدت کچھ اور زیادہ بڑھ سکتی ہے، جیسے اس سال موسم سرما کے آغاز میں یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ شاید سردی آئے گی نہیں، لیکن پچھلے ایک ہفتے سے سردی اپنے ہونے کا بھرپور احساس دلا رہی ہے۔ اور آج رات کے پہلے پہر پنجاب حکومت نے صوبے بھر کے سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں میں ایک ہفتے کی تعطیلات کا اعلان بھی کردیا ہے۔ موسم سرما کی شدت کے پیش نظر یہ چھٹیاں موسم کے خلاف لڑنے کے لئے ہمارا آخری حربہ ہیں۔
شنید یہ ہے کہ اگر موسم میں شدت برقرار رہی تو چھٹیاں اور بڑھا دی جائیں گی، اور اگر خدانخواستہ موسم میں عالمی تبدیلیوں کے پیش نظر موسم ایک ماہ بھی تبدیل نہ ہو پائے تو کیا گرمیوں کی طرز پر سردیوں کی بھی لمبی چھٹیاں ہونا شروع ہو جائیں گی۔
وہ ملک جہاں موسموں کی شدت ہمارے ملک سے بہت زیادہ ہے ، وہاں انہوں نے چھٹیوں کے ذریعے موسم کی مینجمنٹ نہیں کرتے بلکہ موسم کی مناسبت سے ایسے انتظامات کئے جاتے ہیں جن میں لوگوں کے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں، ابھی حالیہ طوفانوں میں امریکہ کی کئی ایک ریاستوں میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا، لیکن عمومی شدید موسم میں جیسے منفی بیس بائیس درجہ حرارت میں بھی لوگ اپنے معمولات زندگی اسی طرح سے جاری رکھتے ہیں۔ سیکنڈے نیویا جسے چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات کی سر زمین تصور کیا جاتا ہے، وہاں بھی سردیاں منفی درجہ حرارت رکھتی ہیں، مگر سردیوں کے دنوں میں سورج کا صرف چند گھنٹوں کئے نکلنا یا شدید برفانی ہواوں کا چلنا، یا برف کا گرنا لوگوں کی زندگیوں پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا کہ سکول بند کرنے پڑیں اور کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے۔
بدلتے موسموں کی تیاری کے لئے ہمیں اپنے ماحول کے مطابق اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانا ہو گی، سردی سے مقابلہ کرنے والے مکانات اور گرمیوں میں کم گرم ہونے والے میٹریل کو تریج دینا ہو گی۔ اپنے ماحول کو بہتر بنانے کے لئے درختوں کو گھروں میں آباد کرنا ہوگا، ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ جیسے اثرات کو مات دینے کے لئے چھوٹے چھوٹے گرم جزیروں میں نخلستان تعمیر کرنے ہوں۔ ورنہ ہر بدلتے موسم کا مقابلہ سکولوں میں مزید چھٹیاں کر کے نہیں کیا جا سکتا۔
ایسے حالات میں جب سورچ مرضی سے نکلتا ہو، سوئی گیس کے آنے کی امید ہی نہ ہو، بجلی کے پورے ہونے کا امکان نہ ہو، کیا چھٹیوں سے سردیوں کو گرم کرنے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، ؟
بس گرم کپڑے پہن کر لحاف اووڑھ کر گھروں میں دبک کر بیٹھا جا سکتا ہے، مگر ایک فعال زندگی گذارنے کے لئے ہمیں اپنے گھروں، اور دفاتر کی تعمیر کا انداز بدلنا ہو گا، سکولوں اور اداروں کو موسم سے مقابلہ کرنے والے آلات و سامان سے لیس کرنا ہوگا،